Sep
24
|
Click here to View Printed Statement
پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ یہ جنگ ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ضیاء الحق دور میں غلط خارجی پالیسیوں کے سبب ہم نے دہشت گردی کا راستہ کھولا اور پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کا ساتھ دے کر اس عفریت کو مکمل طور پر اپنے گلے ڈال لیا۔ آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ’ روس اور دیگر طاقتیں سکون اور امن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ پاکستان ‘ہمارا پاکستان ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہوچکا ہے جس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ سولہ دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں دہشت گردوں نے بربریت کی انتہا کردی تھی اور آٹھ ماہ بعد بڈا بیر ایئربیس پر نمازیوں کو خون میں نہلا کر انہوںنے ایک بار پھر اے پی ایس کی خونی یادوں کو تازہ کردیا ۔
تیس انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالنے کی ویڈیو اور تصاویر سامنے آچُکی ہیں۔ جب مُلک میں خون کی ہولی کھیلی گئی’ ہو تو پھر عید کی خوشیاں بے معنی ہوجاتی ہیں۔اندوہناکی کی ایک دبینر چادر ہے جو کراچی سے خیبر اور گوادر سے گلگت تک تنی ہوئی ہے ۔ جنگی ترانے اور ترانوں کے اندر شہید ہوتے ہوئے پاک فوج کے جوانوں کی جھلکیاں روح اور جسم میں ایک سنسناہٹ سی طاری کر دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کی گرفتاریوں کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ چل رہی ہیں۔ خوف اور جوش کی ملی جلی کیفیات کے اندر عید قربان جاری رہی۔
یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ملک کے سنجیدہ حلقوں نے قربانی کرتے وقت مُلک کے لئے قربان ہونے والے اپنے بہادروں کو کسی نہ کسی طور یاد ضرور رکھا ہے۔ قربانی کا فلسفہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی سے پُھوٹتا ہے۔ کسی بھی بڑے اور اعلیٰ مقصد کے لئے دی گئی قربانی کو اللہ پاک کی رضا کی سند عطا ہو جاتی ہے۔ اللہ سے قربت اور تعلق کی آبیاری کے لئے ہم بکرے’ بھیڑ اونٹ یا گائے کو ذبح کرتے ہیں۔ہمیں تعلق بااللہ کی روحانی قوت نصیب ہوتی ہے۔ لوگوں کی جان کی حفاظت کے لئے دہشت گردوں سے لڑتے اور انسانیت کے قاتلوں سے جنگ کرتے اگر جان قربان ہوجائے تو اس قربانی کو بھی یقیناً اسماعیلی جذبے سے ہی مہمیز ملی ہوگی۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۔
زندگی گذارنے کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ ہم سانحات اور حادثات کو مصنوعی طریقے سے بھلانے کی روش پر چل پڑیں۔ناچ گانے کی طرف قوم کو راغب کریں اور بڈھ بیر کے شہداء کے تذکرے کو اپنی روزمرہ کی گفتگو سے خارج کردیں۔ یہ غفلت کہلائے گی۔ ایک روش یہ کہ ہم شہداء کی عظمت اور قربانی کو یاد رکھیں۔غم کو اپنی طاقت بنائیں۔اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارتے رہنے کا عہد دھرالیں اور اپنی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دیں۔ عید قربان پر جس طرح مہنگائی کا جن سربازار ناچتا رہا’جس طرح ہر دُکاندار قصائی بن کر مڈل کلاس طقبہ کی کھال ادھیڑتا رہا اور جس طرح سرکاری مشینری عوام الناس کی حالت زار سے لاتعلق رہی ‘ جس طرح ہم نے گلی محلے میں گندگی اور اوجڑیاں پھینکیں اس طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے سنت ابراہیمی کی اصل روح کو اپنے دل و دماغ میں ابھی تک اتارا نہیں ہے ۔اللہ کے ہاں ہمارا قربانی کا گوشت نہیں جاتا۔ نیت ‘حضور نیت جاتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم میں اکثر لوگ مسکینوں اور عزیزوں کے حصے کا گوشت بھی فریزر میں جمائے رکھتے ہیں اور چند انتڑیوں اور چھچھڑوں کے سوا مستحقین تک کچھ پہنچ نہیں پاتا۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے تھوڑا سا وقت نکال کر غور وفکر کیا ہو اور محلے میں ایسے گھرانوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہو جو واقعتاً قربانی کے گوشت کے حقدارہیں۔ کیا منظر ہوتا اگر صاحبان خانہ خود گوشت لے کر لوگوں کے دروازے پر دستک دیتے اور بڑے احترام اور اہتمام کے ساتھ گوشت پیش کرتے۔ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملنے’ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا۔ غم یہ بھی ہے کہ دشمن نے ملک کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ اور غم یہ بھی ہے کہ ہم اب بھی اپنی انائوں’اپنی عصبتیوں اور اپنی طبقاتی سوچ قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ایسے میں دہشت گردوں کا خاتمہ کس قدر مشکل ہوتا جارہا ہے۔!