Jan
14
|
Click here to View Printed Statement
سعودی عرب اور ایران کے درمیان مخاصمت آج کا نہیں برسوں پُرانا معاملہ ہے۔ کبھی یہ مخالفت کم ہوجاتی ہے اور کبھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔بدقسمتی سے آجکل دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ سفارتی اور سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ جب بھی سعودی عرب اور ایران آپس میں ناراض ہوتے ہیں یا ان کی باہمی چپقلش خطرے کے نشان سے آگے بڑھتی ہے مسلم اُمہ کے ماتھے پر خوف کے پسینے تیرنے لگتے ہیں۔ چونکہ مسلم ممالک کے اندر شیعہ سنی جھگڑے ہوتے آئے ہیں اس لئے عام مسلمان ڈرنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں دو ملکوں اور حکومتوں کی باہمی رنجش مسلکی تفریق میں تبدیل نہ ہوجائے۔ باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن پاکستانی بہت سہمے ہوئے ہیں۔ اسی خوف کا اظہار حزب اختلاف کے تمام رہنماﺅں نے کیا ہے‘ اسی طرف جناب عمران خان نے توجہ دلائی ہے اور یہی خوف حکومت کو کسی واضح لائحہ عمل پر چلنے نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں یہ تصور پختہ ہوگیا ہے کہ ایران اہل تشیع کا نمائندہ ملک ہے اور سعودی عرب اہل سنت کا محافظ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایران میں ایک ایسی مذہبی حکومت قائم ہے جو ایک مسلک کی پیروی کرنے والے علماءپر مشتمل ہے لیکن ایران نے سرکاری طور پر اپنی حکومت کو کبھی شیعہ حکومت قرار نہیں دیا اور سعودی عرب میں ایک خاندان کی حکومت قائم ہے لیکن اسے بھی کبھی وہابی حکومت قرار نہیںدیا گیا۔ایران والے خود کو ”اسلامی جمہوریہ ایران“ کہتے ہیں اور ان کے جھنڈے پر لفظ ”اللہ“ لکھا ہوا ہے۔جبکہ سعودی جھنڈے میں کلمہ طیبہ لکھا گیا ہے۔دونوں اپنی اپنی طرز حکمرانی کو ”اسلامی“ کہتے ہیں۔ جب سعودی عرب اور ایران اپنے ملکوں کو شیعہ اور سنی ممالک کے لیبل نہیں لگاتے تو پھر امت مسلمہ کے مذہبی اسکالز اور میڈیا پرسنز تقسیم کا یہ تاثر کہاں سے لیتے ہیں۔جو اصل معاملہ ہے وہ مشرق وسطیٰ کے وسائل پر زیادہ سے زیادہ اجارہ داری حاصل کرنے کا جھگڑا ہے۔شاہ ایران قطعاً مذہبی شخص نہیں تھے لیکن ان کے دور میں بھی سعودی عرب ‘ایران تنازعات کھڑے رہتے تھے اور تب ایران کو خطے میں امریکی پٹھو کہا جاتا تھا۔ سعودی عرب نے اس منظر نامے کو تبدیل کیا اور ستر کی دہائی میں انقلاب ایران نے امریکہ کو سعودی عرب کے قریب تر کردیا۔ حال ہی میں مغربی دُنیا کے ساتھ ہونے والے ایرانی معاہدے سے بہت ممکن ہے کہ چند سالوں کے اندر اندرایران ایک بار پھر امریکہ کا منظور نظر ملک بن جائے۔ آج کل روس بڑی تیزی کے ساتھ ایران کا ”دوست“ ملک ہوتا جارہا ہے ۔شام میں اثرورسوخ کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں روس ایران کے ساتھ جبکہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ بتایا جائے کہ کیا روس کوئی شیعہ ملک ہے یا امریکہ کوئی وہابی ملک ہے۔ پھر یہ شیعہ سنی کا جھگڑا کیسے ہو سکتا ہے۔ ملکوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کو مسلکوں اور مذہبوں کے حوالے سے نہ سوچا جانا چاہیے نہ ہی ان بنیادوں پر تجزئے کئے جانے چاہیں۔
مختلف ممالک دنیا بھر میں اپنی لابیاں بناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس طرح کی بہت سی لابیاں بنی ہوئی ہیں۔ وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کوئی تین سو کے لگ بھگ ایسے مدارس ہیں جن کو مشرق وسطیٰ سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ سعودی عرب‘ قطر اور ایران سرفہرست ہیں۔ یہ مدارس بالواسطہ طور پر لابی کا کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر ملکی قوانین مضبوط ہوں اور نیشنل ایکشن پروگرام پر ٹھیک طرح عمل ہورہا ہے تو پھر ایسی لابیاں اور گروہ غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے تیاری بھی ہے اور متعلقہ ادارے بھی چوکس ہیں۔ یہ تصور کرنا کہ شعبہ مسلک کا ہر فرد ایرانی حکومت کا خدانخواستہ ایجنٹ ہے بہت بڑی زیادتی ہے۔اور اسی طرح یہ خیال کر لینا کہ ہر مدرسہ سعودی عرب کے لئے کسی نرسری کا کام کر رہا ہے ایک لغو بات ہے۔یہ سب مسلمان پاکستانی ہیں۔ مُٹھی بھر لوگوں کی رائے اور رویے کو بنیاد بنا کر قومی وحدت پر کلہاڑے چلانے سے باز رہنا چاہیے۔حکومت کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ ملکی مفادات سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرتی رہے۔