Jan
27
|
Click here to View Printed Statement
اڑھائی سال ہوئے ہیں کوئی دن ایسا نہیں جس دن موجودہ حکمرانوں نے قرض کے حصول کی خواہش نہ کی ہو۔ اس خواہش بلکہ ہوس حصول قرض کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب یہ ملک سر تا پاﺅں قرض میں ڈوب چکا ہے۔67 ارب ڈالر کے قرضے ہمارے سروں پر لاد دیئے گئے ہیں۔ قرض پاکستانی قوم نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے لیا ہے۔ ان حکمرانوں کا عوامی مینڈیٹ ایک مخصوص اقلیت کے ووٹ ہیں جنہیں میڈیا اور مال کے زور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اہل ووٹروں کی کل تعداد تقریباً آٹھ کروڑ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے صرف ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر حکومت بنا رکھی ہے۔اقلیتی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت بیس کروڑ پاکستانیوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہی ہے۔ قرض کی کسی ڈیل میں عام پاکستانی کی رائے نہیں لی جاتی۔ پارلیمان میں موجود جماعتیں بھی حکومت سے نہیں پوچھتیں کہ آخر یہ دھڑا دھڑا قرض لینے کے پیچھے کونسی معاشی حکمت عملی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک جوں جوں مقروض ہوتا جارہا ہے حکمران طبقہ کی ذاتی دولت میں اسی قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فی کس کے حساب سے ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے جبکہ اشرافیہ کی دبئی‘ ملائشیائ‘ برطانیہ اور امریکہ میں جائیدادیں پھل پھول رہی ہیں۔ اسحاق ڈار جنہیں کبھی ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کی مہم کا خالق قرار دیا جاتا تھا آج کل ایک ہی کام ہے کہ ”قرض لیتے جاﺅ۔ ملک ڈبوتے جاﺅ“ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار اور عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان کے خلاف ایک گٹھ جوڑ ہے۔ اڑھائی سال بعد آنے والی حکومت نے یہ قرضے اتارنے ہیں اور قرضے اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام کے جسم پر موجود کپڑے تک اتار لئے جائیں۔
قرض دینا عالمی مالیاتی اداروں کا بزنس ہے ۔ ان کا کاروبار ہی یہی ہے کہ پاکستان جیسے حریص اور مانگت حکمرانوں کو اپنی شرائط پر قرض دیتے رہو اور یہ ملک جو کچھ کمائیں سود کی صورت میں وصول کرتے جاﺅ۔ اگر عوامی ردعمل بڑھے تو حکومتوں کے تختے اُلٹ جائیں گے۔اپنی پسند کا کوئی ”شوکت عزیز“ لا کر بٹھا دیا جائے اور اگر ملک پھر بھی قرض نہ اتار سکے تو اسے ڈیفالٹ قرار دے کر اس کے اثاثے اونے پونے داموں بیچ ڈالے جائیں۔ اس کے ذخائر پر دھاوا بولا جائے اور سود سمیت اپنے ”واجبات“ ہتھیا لئے جائیں۔
کہا جارہا ہے کہ ابھی ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف سمیت درجن بھر عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لینے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور دو ہزار سترہ تک بیرونی و اندرونی قرضوں کاحجم ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اسحاق ڈار کے گلے میں ہار پہنائے جائیں جن کی معاشی دہشت گردی کے سبب یہ ملک اس حال کو پہنچ جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں دو سو ارب ڈالر پڑے ہیں۔ اگر ان میں سے آدھی رقم بھی واپس لائی جائے تو پاکستان کا تمام قرض اتارا جاسکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان فرمایا تھا کہ اب ان کا مشن یہ ناجائز رقم واپس لانا ہے۔ لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو ایک خطہ تک نہیں لکھا جاسکا۔ زرداری تو یوں ہی بدنام ہیں۔ یہاں ہر نقاب کے پیچھے ایک زرداری چھپا ہوا ہے۔ایک دوسرے کے تحفظ کی رسم نبھائی جارہی ہے اور ذاتی خزانوں کو بھرنے کا مقابلہ شروع ہے۔
قومی خزانے میں پڑے مبیّنہ اکیس ارب ڈالر ایک دھوکہ ہے۔ یہ بھی قرض اور مانگے تانگے کی رقم ہے۔ یہ ہرگز پاکستان کے پیسے نہیں ہیں بلکہ الٹا ان اربوں ڈالر کے عوض ہر سال اربوں روپے سود دینا پڑ رہا ہے۔
جب پاکستانیوں نے یہ رقم لی نہیں تو پھر یہ ادا کیوں کریں۔ کوئی تو اٹھے جو تحریک چلائے اور رائے عام ہموار کرے۔ سول سوسائٹی آگے بڑھے اور اعلان کردے کہ وہ حکمرانوں کی طرف سے لیا ہوا قرضہ واپس نہیں کریں گے۔ مالیاتی اداروں نے پاکستانی قوم سے پوچھ کر یہ قرضے نہیں دیئے۔ جب قوم نے قرض لیا نہیں تو پھر واپس کیوں کرے۔ جن کو قرض دیا گیا ہے ان کی دولت بیرون ممالک بینکوں میں پڑی ہے۔ وہ جانیں اور حکمران طبقہ جانے۔
عوام کو مقروضی معیشت کی سزا کیوں دی جارہی ہے؟