Feb
10
|
Click here to View Printed Statement
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے بعد بے گھر ہونے والے مقامی افراد کو دوبارہ آباد کرنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے اور یہ آپریشن کا مُشکل ترین مرحلہ ہے۔ فاٹا اور خیبرپختونخواہ کی خصوصی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آرمی چیف نے قبائلی علاقے کے عوام کے عزم کو سراہا۔”خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے عوام کے عزم نے دہشت گردوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے”سپہ سالار نے کورہیڈکوارٹرز پشاور میں جس خصوصی اجلاس کی صدارت کی اس میں خیبرپختونخواہ کے گورنر’وزیراعلیٰ’ اداروں کے سربراہان اور کور کمانڈر پشاور بھی موجود تھے۔
اگر کسی کا ہنستابستا گھر اُجڑ ا ہو تو اسے اندازہ ہوگا کہ چھت چھن جانے کے بعد مصیبتوں اور مشکلات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کیمپوں کی زندگی ہر روز مارتی ہے۔ راشن کا انتظار ‘موسموں کی یلغار اور ڈونرز کی تحقیقات کے عذاب سے گذرنا پڑتا ہے۔ شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں کے عوام نے پاکستان کے لئے عظیم قربانیوں کی داستان رقم کردی ہے۔ راقم نے پہلے بھی عارضی طور پر ہی سہی بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو”محسنین پاکستان”قرار دیا تھا۔ یہ لوگ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں اور سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں کے درمیان پس کر رہ گئے تھے۔ انہیں جب اپنے گلی محلے چھوڑنے کا کہا گیا تو طالبان نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ اور حکومت کے حامی مشیران کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ان عظیم لوگوں نے جان اور مال کی قربانی دی اور حکومت کے کہنے پر علاقے خالی کر دیئے۔ کیمپوں میں رہتے ان کے بچے جوان ہوگئے ہیں ۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی نئی نسل تعلیم سے بے بہرہ رہی ہے ۔آئی ڈی پیز کو سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے بڑے بلند بانگ دعوے کئے گئے لیکن عملاً یہ سب اخباری بیانات تک محدود رہا ۔ بہتر سلوک کی توقعات دھری کی دھری رہ گئیں۔ اندرونی ہجرت کا غم اپنی جگہ بے اعتنائی کے ایسے زخم بھی لگے جنہیں صرف وقت ہی مندمل کر سکے گا۔ اگر افواج پاکستان ان بے سروسامان لوگوں کی دستگیری نہ کرتی تو سول انتظامیہ اور سیاسی حکومت انہیں کب کا بھوکا مار چُکی ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے انہیں اپنی ذمہ داری سمجھا ہی نہیں۔ اگر انہیں کیمپوں میں مناسب سہولتیں ملتیں اور ان کی ضرورتیں پوری ہوتیں تو یہ واپسی کے لئے مظاہرے نہ کرتے۔
فوج نے اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔لیکن آپریشن کے دوران ان کے گھر بار’ بازار اور دُکانیں سب ملیا میٹ ہوچکے ہیں۔ فوج نے اپنی نگرانی میں سڑکیں بنا دی ہیں۔ اب ان کی واپسی کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ ان لوگوں کو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ جونہی اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو طالبان پھر گھس آئیں گے۔ ان کے گھروں کی تعمیر نو بھی ایک مسئلہ بنا رہے گا۔ سب سے بڑی دقت وہاں کی سول انتظامیہ ہے ۔ فاٹا کے لئے ابھی تک قانون سازی نہیں ہوسکی۔ اگر وہی مشران اور ایجنٹس کا سلسلہ چلا تو یہ لوگ اس سسٹم کے پہلے ہی ستائے ہوئے ہیں۔ وہاں جا کر انہیں کس قانون کے تحت معاملات زندگی گزارنا ہوں گے۔ یہ سوال اہم ہے۔ ان کے روزگار کے لئے کیا متبادل انتظام کیا گیا ہے ۔ یہ دوسرا سنسناتا ہوا سوال ہے۔ مٹی پتھر کے پختہ گھر تو شائد انہیں دوبارہ مل جائیں لیکن زندگی کے پہیے کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کون سا پیشہ اختیار کریں گے۔ غربت ہی ایک بڑا سبب تھا جس نے طالبان’ القاعدہ اور لشکروں کو ان علاقوں میں نفوذ کرنے کا راستہ دیا۔ اگر بے روزگاری کا عفریت جوں کا توں رہنا ہے تو دہشت گردی کے جن کو قابو کرنا مشکل ہوگا۔ کیا حکومت اس قابل ہے کہ وہ بے روزگار خاندانوں کو ہر ماہ اتنی رقم فراہم کرتی رہے کہ وہ اپنا گذارہ کرسکیں۔ جنگجوزدہ علاقوں کی بحالی وقت لیتی ہے ۔ یہ سوات آپریشن سے مختلف معاملہ ہے۔ ان علاقوںکی افغانستان کے ساتھ سرحدیں مشترک ہیں۔ بارڈر کے آرپار آنا جانا ‘روکنا ایک چیلنج ہوگا۔ ان آئی ڈی پیز میں ایسے خاندان بھی ہیں جو دو دہائیوں سے بنوں اور کوہاٹ میں رہ رہے ہیں۔
آرمی چیف نے بالکل ٹھیک کہا کہ یہ آپریشن کا مشکل ترین مرحلہ ہے۔ ان محسنین کی دلجوئی اور تالیف قلب میں کوئی کسر چھوڑی نہیں جانی چاہیے۔ امریکی صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اشارہ دے چکے کہ ابھی پاکستان میں سکون مشکل ہوگا۔ قبائلی علاقوں کے پاکستانی ہی ”داعش” کی پرورش کو روک سکتے ہیں۔ ان کی مکمل بحالی دراصل امن کی بحالی ہے۔
یہ بے سروساماں لوگ ہمارے دینی بھائی ہیں۔ اللہ پاک صاحب اختیار لوگوں کے لئے ارشاد فرماتے ہیں’
”کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں( کہ حقائق کو دیکھتا)؟ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے( کہ بھلائی کی ترغیب دیتا)؟ اور دونوں راستے نہیں سمجھائے( کہ اچھے اور برے کو سمجھتا)؟ مگر وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا۔ اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟(یہی کہ) گردن چھڑائی جائے یا بھوک کے دن کسی قرابت مند یتیم یا کسی خاک آلود مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔