Mar
01
|
Click here to View Printed Statement
ملاقاتیںتو پہلے بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ ملاقات خاص ثابت ہوئی۔ ایک دوست کے ہمراہ جنرل صاحب سے چند منٹ کی حاضری کیلئے وقت مانگا تھا،لیکن وقت گزرنے کااحساس ہی نہ ہوا۔جنرل اسلم بیگ نے ملکی صورتحال پر کا جو تجزیہ فرمایا وہ سننے کے لائق تھا ۔یوں سمجھئے کہ ہر پاکستانی کے دل کی آوازہے ۔جنرل صاحب کی گفتگو سے میں نے جو تائژ لیا وہ اسطرح کا ہے کہ پاکستان میں امریکی لابی نے معاملات کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میںکررکھا ہے اور ہمارے قومی اداروں میں اختلافی سوچ کے حامل لوگوںکو کھڈے لائن لگا دیا جاتاہے ۔ہماری خارجہ پالیسی امریکی ڈکٹیشن کے مطابق چلتی ہے ۔یہ تائژ بھی قائم ہوا کہ پاکستان کو چین سے دور ہٹانے کیلئے بھارت کا ہوّا دکھا کر بلیک میل کیا جاتا ہے ۔جنرل صاحب کا کہنا تھا پاکستان میںمذہبی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت امریکی اثرورسوخ کا ردعمل ہے اور اگر ان جماعتوں کو مین سڑیم میں نہ لایا گیاتو پاکستان کے قومی وجود کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ لیکن امریکہ ان جماعتوں کا شدید مخالف ہے ۔پاکستان ،ایران اور افغانستان کا ایک بلاک بننا چاہیے ۔اس خطے میں امن ،ترقی اور خوشحالی کا یہی واحد راستہ ہے ۔
جنرل صاحب جب بات سن رہے ہوتے ہیں تو ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ طاری رہتی ہے ۔میںنے سوال کیا کہ جنرل صاحب کیا ہمارے موجودہ خراب حالات کا سبب یہ تو نہیں کہ ہم بحثیت قوم قرآن کی رہنمائی سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اسلام نے ہمارے لیے یہود وہنود کے حوالے سے جو حدود متعین کی تھیں وہ توڑدی گئی ہیں۔جنرل صاحب نے میری بات کی تائید کی اور کہا کہ یہی سچ ہے لیکن جو ایسی بات کرے گا اسے ناپسندیدہ عناصر کی فہرست میں شامل کردیا جائے گا ۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ جنرل بیگ نے ہمیشہ حق گوئی کا حق ادا کیا ہے ۔جنرل پرویز مشرف کو اختلاف رائے براداشت نہیں تھی۔اس دور میں جنرل اسلم بیگ کے گھر کی دیواریں بھی گرا دی گئیں تھیں ۔ جنرل بیگ کا یہی اختلاف تھا کہ اپنے لوگوں کو امریکہ کے آگے مت بیچو ۔مشرف کی عدم برداشت کی یہ حالت تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ای میل کو ہیک کروایا گیا اور روابط کے ذرائع محدود کردئے گئے ۔جنرل صاحب نے کلمہ حق کہنا نہ تب چھوڑا نہ اب۔ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا۔ایک بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا ۔لیکن سپریم کورٹ میں کچھ بھی ثابت نہ ہوا الٹا الزام لگانے والوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی ۔جنرل صاحب نے ایرانی جرنیل قاسم سلمانی کی امریکی میزائلوں سے ہلاکت کو مسلم امہ پر حملہ قرار دیاتو امریکی لابی نے مرحوم سلمانی کی جنرل بیگ کے ساتھ ایک اتفاقی تصویرکو وائرل کروادیا۔گویا اگلا ٹارگٹ جنرل صاحب ہوسکتے ہیں ۔لیکن جنرل صاحب ایسی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ۔وہ دنیا کی بہترین فوج کے سپہ سالار رہے ہیں ۔اور ان کا دامن ہر لحاظ سے اجلا ہے ۔
دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔جنرل صاحب کی مہمان نوازی ہمیشہ یادگار ہوتی ہے ۔جہاں لوازمات کام ودہن میں تنوع پایا جاتا ہے وہیں وہ مہمان کے سامنے طلائی طشتریاں خود بڑھا رہے ہوتے ہیں ۔جنرل صاحب بے مقصد زندگی گزارنے کے کبھی بھی عادی نہیں رہے ۔آجکل وہ ایک رہائشی منصوبے پر کام کررہے ہیں ۔ایسی رہائشی کالونیاںبنانا چاہتے ہیں جس میں غریب لوگوںکو امیر لوگوں جیسے گھر مل سکیں اور ان کے بچے بھی ملک کے خوشحال لوگوں جیسی تعلیم حاصل کر سکیں۔یہ ایک غیرمنافع بخش منصوبہ ہوگا ،جس میں گھر حاصل کرنے والوں کو معمولی سا ماہانہ کرایہ دینا ہوگااوردس پندرہ برس بعد وہ گھر کے مالک بن جائیں گے ۔اس مجوزہ کالونی میںمعیاری اسکول ،فری ہسپتال اور کھیل کے میدان ہونگے اور یہ کالونیاں بڑی شاہراہوں کے قریب بنیں گی۔اگرچہ سرمایہ لگانے والے کو زیادہ منافع نہیں ہوگا لیکن ان کا سرمایہ ڈوبے گا نہیں اور ثواب میں برابر کے حصہ دار ہونگے۔غریبوں کو امیروں جیسے ماحول فراہم کرنا ایک خواب ہے لیکن جنرل صاحب خواب دیکھتے اور اسے پوراکرگزرتے ہیں ۔ضرب مومن بھی ایک خواب تھا لیکن دنیا پر حیرت طاری ہوگئی تھی جب یہ فوجی مشقیں تکمیل پذیر ہوئی تھیں ۔جنرل صاحب نے اپنی مجوزہ کالونی کیلئے جگہ حاصل کرلی ہے۔آجکل جنرل صاحب ہروقت اسی منصوبے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں ۔
محفل ختم ہوگئی۔الوداع کہنے کے لیے بیرونی گیٹ تک آئے ۔پھر مجھے رکنے کا کہا۔ان کے پرسنل سیکرٹری کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔کہنے لگے یہ آپ کیلئے ہے ،سلوا کرپہن لینا ،مجھے خوشی ہوگی ۔یہ پینٹ کوٹ کا قیمتی کپڑا تھا ۔میں نے پہنا تو لوگوں نے اس سوٹ کی تعریف کی ۔شکریہ جنرل صاحب ،تحفے اور قیمتی باتوں کا شکریہ!