Dec
07
|
Click here to View Printed Statement
جب بھی افغانستان میں مورچہ زن امریکی فوجیں دہشت گردی کے ٹھکانوں کی موجودگی کا بہانہ بناکر پاکستان کے قبائلی علاقوں پر میزائل داغتی ہیں یا فائٹرطیاروں سے بم برساتی ہیں ہمارے فوجی ترجمان بیان دیتے ہیں کہ امریکی طیاروں نے ہم سے اجازت لئے بغیر کارروائی کی ہے ۔جب بغیر اجازت کوئی ملک حدود کے اندر گھس کر فوجی کارروائی کرے تو اسے جارحیت کہا جاتا ہے اور جارحیت کیخلاف اپنی عوام کا تحفظ کرنا قومی افواج کی پیشہ وارانہ ذمہ داری ہوتی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی آڑ میں دراصل امریکہ ،اس کے اتحادی اور افغان حکومت نے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر ایک جنگ مسلط کردی ہے تو بعیداز حقیقت نہ ہوگا ۔سیکرٹری دفاع میجر تنویر حسین اور سید مشاہد حسین کے حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ سے تعاون کرکے پاکستان نے غلطی کی تھی۔ تب یہ غلطی اسقدر نمایاں نہیں تھی لیکن امریکیوں کی طرف سے حملوں کا جواب نہ دینا دراصل مسلط کی گئی جنگ سے شتر مرغ والا انکار ہے ۔پاکستان کے ہر ذی شعور شہری کو معلوم ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ۔لیکن حکمران شائد کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر خارجہ ،وزیر اعظم اور خود صدر مشرف کی طرف سے ممکنہ امریکی مداخلت کیخلاف دئیے گئے بیانات کی روشنی میں غیر ملکی طیاروں کو پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی دھر لیا جاتا،لیکن تماشا یہ ہوا کہ عین اس وقت جب امریکی طیارے بے گناہ پاکستانیوں کو خون میں نہلارہے تھے اس وقت چیف آف آرمی سٹاف صدر جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں ناچ گانے کی تربیت دینے والی آرٹ گیلری کا افتتاح کررہے تھے ۔
اور ٹھیک اسی دن حکمران کی دلدادہ این جی او کے تحت اس وطن کے بچے اور بچیاں ایک سرکاری بلڈگ کے اندر ڈانس کرنے میں مصروف تھے ۔
قوموں کی زندگی میں طاﺅس ورباب بھی آئے ہیں جشن اور بھنگڑے بھی ڈالے جاتے ہیں ۔موسیقی اور ڈانس کی محفلیں بھی جمتی ہیں ۔لیکن اس وقت جب وہ کہیں سے فتح مند ہوتے ہیں ۔پاکستان تو آج تک اپنی بقاءکی جنگ لڑرھا ہے اور آجکل عملاََ حالت جنگ میں ہے ۔جہاں بگٹی کی ہلاکت پر پورا صوبہ ویران دکھائی دے رہا ہو اور پاکستان کے قبائیلی علاقوں کے لوگ امریکی بمباری سے خون آلو دلاشوں کو اٹھارہے ہوں ایسے ملک میں طاﺅس رُباب زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف سرگرمی کہلائے گی ۔خصوصاََ جب ملک کا محافظ ہی شمشیر وسناّں چھوڑچکا ہو اور اس نے ناچوں اور گولوّں سے دل بہلانے کا مشغلہ اپنالیا ہوتو پھر اقتدار تو دور کی بات مملکتیں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکمران حقائق سے نظریں چراکر کس کو دھوکا دے رہے ہیں ۔کیا سرحدوں کی بگڑتی اور غیر محفوظ ہوتی ہوئی صورتحال اپوزیشن کا پراپیگنڈا ہے ۔کیا یہ کہ دنیا کے امریکی طیاروں نے ہم سے پوچھ کر بم نہیں مارے ،حکومت کی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے برابر سمجھ لیا جائے۔!
دنیا میں یہ واحد بدقسمت ملک ہے جو گزشتہ چار برس سے تباہ کن جنگ میں مبتلا کردیا گیا اور اس کے حکمران عیش و نشاط میں ڈوب گئے ہیں ۔ان کا شائد ارادہ ہوگا کہ جب اسلام آباد پرامریکی طیارے حملہ کریں گے تو وہ اپنی وردی سمیٹ کر استنبول چلے جائیں گے ۔!
سیاسی جماعتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی جارحیت کی براہ راست اور کھل کر مذمت کریں ۔بینظیر بھٹو صاحبہ کو اپنے مقدمات ختم کرانے کی فکر تو ہے لیکن مملکت اسلامیہ کیخلاف جو گھناﺅنے جرم ہورہے ہیں ان کیخلاف بھی لب کشائی فرمائیں۔ اے پی ڈی ایم کے رہنماﺅں کو بھی چاہیے کہ وہ امریکی اتحادی اور افغان فوجوں کی ان کارروائیوں کیخلاف احتجاجی ریلی کا اعلان کریں۔ راقم کو کہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مغربی سرحدوں پر گدھوں کی طرح منڈلاتی غیر ملکی فوجیں پاکستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاکرپاکستان کے کسی قبائیلی بیلٹ پر قبضہ کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں چین کیخلاف ایک نیا تائیوان بنانے کا منصوبہ بڑی دیر سے زیر غور ہے ۔جارحیت کیلئے آمادہ قوتیں صرف وہیں تک نہیں رکیں گی ۔انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی محفوظ گاہیں دیکھ لی ہیں ۔بھارت کے گٹھ جوڑ سے وہ کوئی بھی شیطانی قدم اٹھا سکتی ہیں۔صدر جنرل پرویز مشرف کو ”سب سے پہلے پاکستان “والے اعلان کو اب سچا ثابت کرنا ہوگا ۔رقص وسرور کی پریکٹس کو خیر باد کہہ کر وطن کی حفاظت کیلئے کوئی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ۔حالت جنگ میں آخر یہ ناچ گانے کیوں۔؟