Dec
04
|
Click here to View Printed Statement
قرآن حکیم کا واضح ارشاد ہے کہ ریاستی امور کے حوالے سے فیصلہ کرنے سے پہلے اصحاب مشاورت سے مشورہ ضروری ہے ۔رسولﷺ کا اسوة حسنہ ہمیں بار بار یہی یاد دلاتا ہے کہ قومی معاملات میں قدم قدم پر مشورہ کرنا چاہیے ۔
آپ رسولﷺ اللہ کے رسول ہوتے ہوئے اور وحی کی رہنمائی میسر ہونے کے باوجود امن اور جنگ کی حالت میں ہر اہم مسئلے پر اپنے اصحابؓ سے رائے لیتے تھے اور ایسا بھی ہوا کہ اصحابؓ کی رائے آپ ﷺ کی رائے سے مختلف ہوتی تھی لیکن آپﷺ اصحاب ؓ کی اجتماعی رائے کو تسلیم کرلیتے تھے۔رحمت العالمین کا طرز مشاورت پوری انسانیت کیلئے ایک راہ عمل ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہوں کیلئے اس سے بہتر رہنمائی ہوہی نہیں سکتی۔لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے ا کثر حکمرانوں نے مشورہ لینے کی اس خوبصورت سنت اور قرآنی حکم کو دیگر اسلامی احکامات کی طرح پس پشت ڈال دیا ۔انہوں نے اصحاب مشاورت کی بجائے اپنے اردگرد خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی جماعت کا حصار قائم کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بے لاگ آراءدینے والوں کی بجائے بادشاہ کا چہرہ دیکھ کر قصیدہ گوئی کرنےوالے ملکی معاملات میں کلیدی حیثیت اختیار گئے اور آخر کار خود حکمران بھی ڈوبے اور ملک وملت بھی آگے بڑھنے کی بجائے ترقی معکوس کے عمل مسلسل سے دو چار کرگئے۔
صدر جنرل پرویزمشرف سیدّ ہونے کے باوجود حضور ﷺ کی سیرت طیبّہ کے مشاورتی پہلو پر عملدرآمد کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔نائن الیون کے بعد طالبان کیخلاف امریکی جنگ میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے وقت بھی جنرل پرویزمشرف نے چیف ایگزیکٹو کے طورپر ذاتی سوچ کے تحت ہی فیصلہ کیا تھا ۔امریکی عہدیدار کو رات گئے فون پر اپنی حمایت کا یقین دلانے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”میں نے سوچا اور پھر ہاں کردی“۔ورلڈ جیوش کانگریس کے سربراہ سے ملاقات کرنے کا فیصلہ بھی صدر مشرف کا ذاتی فیصلہ تھا ۔ذاتی اور انفرادی فیصلوں کا سفر گزشتہ آٹھ برس سے جاری ہے ۔جو اصحاب مشاورت جنرل پرویز مشرف سے اختلاف کیا کرتے تھے وہ دھیرے دھیرے ناپسندیدہ ہوتے گئے اور انہیں جنرل پرویز مشرف نے ایک ایک کرکے قصر صدارت سے بہت دور پھینک دیا ۔اب صدر مشرف کا دائرہ مشاورت سکڑ کر صرف چند ذاتی تابعداروں تک محدود ہوگیا ہے۔
9مارچ کو جب چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس بھجوائے جانے کا مرحلہ تھا تو واقعات ظاہرکرتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے جنرل سیکرٹری سید مشاہد حسین ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس ریفرنس کیخلاف بڑھ چڑھ کر اپنی رائے پیش کی تھی۔ ذرائع ابلاغ کیخلاف ایک مرحلے پر خوشامدیوں نے صدر مشرف کو خوب بھڑکایا تھا ۔صدر جنرل پرویز مشرف کو سید مشاہد حسین نے قائل کرلیا تھا کہ میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی درست نہیں ۔لیکن چاپلوسوں کے ٹولے کو مشاہد حسین کی مداخلت پسند نہ آئی اور وہ موقعہ کا انتظار کرنے لگے ۔جاوید ہاشمی اور آصف علی زرداری کی رہائی کیلئے مشاہد حسین بہت سرگرم رہے ۔بینظیر اورمیاں نواز شریف کو واپس لانے کیلئے بھی مشاہد بہت متحرک تھے ۔انہوں نے اسیروںکی رہائی کیلئے بیانات بھی دئیے تھے ۔
وہ پہلے سینیٹر اور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ایران پر متوقع امریکی حملے کو امریکی حماقت قرار دیا تھا ۔لیکن صدر مشرف کو شاید مشاہد حسین کی کھری کھری باتیں چبھنے لگی تھیں ۔”غیر ضروری مشورے“ کے عنوان سے ان کے ذہن میں گرہ ڈالی گئی ۔اور جب ایمرجنسی کا فیصلہ کیا گیا تو مایوسی کے عالم میں مشاہد حسین جیسے لوگوں کو ملک چھوڑ کر چین جانا پڑا ۔ایمرجنسی لگ گئی اور آج حالت یہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے لئے چاروں طرف محاذ گرمالئے ہیں ۔وہ ایک طرف ایڈوانس کرتے ہیں تو دوسری جانب سے یلغارہوجاتی ہے ۔مشاہد حسین بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ ذرائع ابلاغ سے پابندی اٹھائیں ۔ایمرجنسی ختم کریں ۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مسلم لیگ ق کو ایمرجنسی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے۔آج صدر مشرف اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہر آوازکو دبانے اور ہر سانس کو پابند سلاسل کرنے کے باوجود وہ ڈوبتے ہوئے شخص کی مانند تنکوں کے سہارے ڈھونڈرہے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیرونی دنیا میں جگ ہنسائی کا تھیٹر لگا ہوا ہے ۔اگر مشاہد حسین کے مشورے مان لئے جاتے تو آج صدر اس قدر تنہا نہ ہوتے ۔ اصحاب رائے سے مشورہ کرنا اسی لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ اختلاف رائے آپ کو گڑھوں میں گرنے سے بچالیتی ہے اور ریاستی امور میں یک رنگی کے سبب جمود طاری نہیں ہوتا۔