Mar
26
|
Click here to View Printed Statement
حدیث نبوی ہے” جس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا“۔محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختصر ارشاد میں فرد‘ معاشرے اور قوم کے عروج کا ایسا قابل عمل فارمولہ عطا کردیا ہے جس پر عمل کرنے سے زوال آہی نہیں سکتا۔
اگر ہم پاکستانی قوم کے ارتقائی سفر کو اسی فارمولے پر پرکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہماری تمام تر اجتماعی اور انفرادی کوتاہیوں اور کج ادائیوں کے باوجود ہمارا اجتماعی سفر کسی نہ کسی طرح آگے کی طرف جاری ہے۔خصوصاً آج ہم ایک بار پھر شخصی حکمرانی کے غیر مقبول اورغیر اسلامی نظام حکومت سے چھٹکارا پانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔گزشتہ آٹھ برسوں میں آمرانہ طرز حکمرانی کے سبب قومی نوعیت کے فیصلوں کو عوامی تائید حاصل نہ ہوسکی اور ہمارے قومی وجود کو ضد اور ہٹ دھرمی نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑا دھچکا ہماری قومی خودمختاری کو لگا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے گو پاکستان مالی اعتبار سے قابل فخر نہ تھا لیکن ہم اپنے خارجی اور داخلی امور میں فیصلے کرنے میں بڑی حد تک آزاد تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے تمام تر امریکی دباﺅ کے باوجود بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے ہر پاکستانی کے دل میں خودمختاری کے جذبے پر وان چڑھا دیئے تھے۔ بیرون ممالک بھی عام تاثر یہ پیدا ہوگیا تھا کہ پاکستانی قوم نہ صرف یہ کہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں قدم رکھ چکی ہے بلکہ ہر طرح کے مالی مفاد اور سیاسی دباﺅ کے باوجود اپنے ملکی وقار کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کرچکی ہے۔
نائن الیون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عالمی صورتحال کے اثرات سے ملکوں اور قوموں کا بچنا تقریباً محال تھا۔ ہر ملک اور خطہ امریکہ کی بالادستی سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور متاثر ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے سب سے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے ہیں۔آج تمام سیاسی اکابرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر افغانستان پر امریکی حملے کے لئے صدر مشرف غیر مشروط طور پر ”ہاں“ نہ کہہ دیتے تو تباہی کا دائرہ کار اس قدر وسیع نہ ہوتا۔ شخصی فیصلوں کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ امریکہ جیسے طاقتور ممالک معاملات طے کرتے وقت قوموں کی اجتماعی مزاحمت سے بے خوف ہوجاتے ہیں اور اپنے جائز ناجائز مطالبا ت فردِواحد کے ذریعے پورے کرواتے رہتے ہیں۔ جمہوریت میں برسراقتدار وزیراعظم کے اردگرد پارلیمنٹ‘ سینٹ اور کابینہ کا ایک دفاعی حصار قائم رہتا ہے اور کسی بیرونی دباﺅ کی صورت میں منتخب شخص خود کو تنہا یا اکیلا محسوس نہیں کرتا۔ پاکستان کی بدقسمتی اس وجہ سے بھی دگنی تگنی ہوگئی کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے امریکی ایجنڈے کو ”قومی مفاد“ قرار دے دیا اور امریکہ کا ساتھ دینے کی مجبوری کو شوق بنا لیا۔ اس بدتدبیری کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھیرے دھیرے پاکستان اپنے قومی مﺅقف سے پیچھے ہٹتا گیا اور آج یہ حالت ہے کہ امریکیوں کی طرف سے کھلے عام ہماری خودمختاری ہی نہیں حمیت ملّی کا بھی مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ جغرافیائی سرحدوں سے لیکر نظریاتی سرحدوں تک ہر سرحد کی غیر ملکی خلا ف ورزیاں جاری ہیں۔ آج کے پاکستانی کی سوچ یہ بن گئی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کوئی آزاد مملکت نہیں بلکہ تیسری دنیا میں امریکہ کی کوئی کالونی ہے جس میں وہ جب چاہے جس طرح چاہے دندناتا ہوا آگھسے۔
اسی کیفیت سے نجات دلانے کے لئے اٹھارہ فروری کو پاکستانیوں کی واضح اکثریت نے گزشتہ آٹھ برس کے آمرانہ سیٹ اپ کے خلاف ووٹ ڈالے ہیں۔ پاکستانیوںنے دنیا کو ایک بار پھر حیران کردیا ہے۔ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہے اور موقع ملتے ہی اپنی امنگوں اور آرزوﺅں کی تکمیل کی طرف تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ بیتے ہوئے آٹھ برسوں سے ہمارا آج بہتر ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔پیغمبر اسلام کے امیتیوں نے آپ کے ارشاد پر عمل کرکے خود کو دنیا کی جاندار‘ متحرک‘ معاملہ فہم اور فرض شناس قوم کے طور پر منوایا ہے۔
ارتقاءکا عمل کوئی انقلاب نہیں ہوتا۔ معاشرے اور قومیں اپنے سفر کے دوران کئی بار گرتی اور بار بار اٹھتی ہیں ۔انتخابات کے مثبت نتائج کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ نئی بننے والی حکومتوں کے پاس الہ دین کا کوئی چراغ آگیا ہے جس کے رگڑتے ہی ہماری چھینی گئی خودمختاری واپس آجائے گی۔ امریکہ جیسے خود سر ممالک اپنی حزیمت کو مشکل سے ہی قبول کرتے ہیں۔ دولت اور اسلحہ کی طاقت سے بگاڑ پیدا کرنے کی رسم پرانی ہے۔ پاکستان کی نئی قومی قیادتوں کو تلخ حقیقتیں سامنے رکھنی ہیں۔ انہیں بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ امریکہ اور ا س کے پاکستانی حواریوں کو مشتعل کئے بغیر فیصلوں کے اختیارات اپنے ہاتھ میںلینے ہوں گے۔ اگر امریکیوں کو واقعتا ہمارے خطوں سے کسی دہشتگردی کا خطرہ ہے تو بات چیت اور ڈائیلاگ کے ذریعے انہیں ان شکوک و شبہات سے نجات دلانا ہوگی ان کے غلط مفروضوں اور بے بنیاد خدشوں کو دلیل کے ذریعے جھوٹ ثابت کرنا ہوگا۔ نئی قیادتوں کو تخت و تاج نہیں کانٹوں کا ہار پہننے کو مل رہا ہے۔ زخمی ہونے سے بچنا ہے۔ ہمیں اپنے آج اور کل کو بہتر بنانا ہے۔حکمت مومن کی میراث ہوتی ہے۔اب وقت ہے کہ اس میراث سے فائدہ ٹھایا جائے۔