Mar
31
|
Click here to View Printed Statement
برسراقتدار آنے والا نیا جمہوری اتحاد پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سب سے بڑا اور مضبوط حکومتی اتحاد ہے۔ بھاری مینڈیٹ کسی ایک سیاسی پارٹی کو حاصل ہو تو خدشہ رہتا ہے کہ اقتدارسے محروم رہ جانے والی مدِمقابل پارٹیاں برسراقتدار پارٹی کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہوجائیں۔ اتحادوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ووٹروں کی غالب اکثریت خود کو اقتدار کا حصہ سمجھ کر شروع کے دو تین برس بڑے صبر اور تحمل سے گذارتے ہیں۔
اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی‘پاکستان مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ووٹرز نومنتخب وزیراعظم اور کابینہ کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں اور صوبہ سندھ‘بلوچستان اور سرحد میں جے۔یو آئی‘ (ق) لیگ کا مخصوص گروہ اور ایم ۔کیو۔ ایم بھی کسی نہ کسی صورت میں اتحادی حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔ گوکہ پارلیمنٹ کے اندر نڈھال قسم کی اپوزیشن موجود ہے لیکن یہ بھی محض ایک فرینڈلی اپوزیشن ہی رہے گی کیونکہ مرکز میں تو یہ چالیس بیالیس ایم۔این ۔ اے حزب اختلاف کا حصہ ہیں لیکن صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں یہ بلاواسطہ طور پر حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیدیوسف رضا گیلانی کی حکومت کو اس ملک کے اسی فیصد سے زائد عوام کی تائید اور حمایت حاصل ہوچکی ہے تو یہ حقیقت کے قریب ترین بات ہوگی۔
قومی مفاہمت کی اس فضاءکے نتیجے میں دراصل عوام کی حکومت قائم ہو چُکی ہے۔آج خلقِ خدا خود راج کرنے کی پوزیشن میں آچُکی ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ مخالف سیاسی یا غیر سیاسی قوتیں اس اتحادی اور عوامی حکومت کے راستے میں کوئی بھاری پتھر پھینک سکیں۔مخدوم سید یوسف رضا گیلانی اس مُلک کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جنہیں دو تہائی سے بھی زیادہ ممبران قومی اسمبلی نے منتخب کیا ہے۔
اشتراک اقتدار کے فارمولے سے جنم لینے والے پارلیمانی اتحاد بظاہر بہت طاقتور ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کی طبعی عمر کا انحصار مشترکہ ہداف کے پورا ہونے پر ہوتا ہے اس لئے ایک لحاظ سے ایسے اتحاد وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ مشترکہ اہداف پورے ہوتے ہی اتحاد بکھر جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوسکے تو پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔
کثیر الجماعتی حکومت کو اپنی عمر بڑھانے اور خود کو عوامی توقعات پر پورا اتارنے کے لئے اپنا احتساب خود کرنے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ مقتدر پارٹیوں کو اقتدار میں رہتے ہوئے بے حسی اور لاتعلقی کی بیماری لگ جاتی ہے۔ تنقید اور مخالف کا وہ نشتر میسر نہیں ہوتا جو روّیوں کو لگ جانے والا زنگ اتار سکے۔ اس لئے اتحادی حکومتیں ٹائٹینک کی طرح دھیرے دھیرے ڈوبنا شروع ہوجاتی ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی قد آور اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے افکار اور نظریات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ وہ لوگوں کے درمیان رہنے والے اور عوا م کی بات کرنے والے سیاستدان ہیں اس لئے وہ جو بیانات بھی دیتے ہیں انہیں ہر دلعزیزی نصیب ہوجاتی ہے۔ عوام ان کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز‘ چلنے پھرنے کے طریقے اور گفتگو کرنے کے سلیقے کو بڑے انہماک اور دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے لفظوں پر اعتبار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم کو اگر پاپولر رہنا ہے تو انہیں اپنی مشاورت کا دائرہ وسیع رکھنا ہوگا۔ مشیروں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ صدر جنرل پرویز مشرف کی ناکامیوں کا سب سے بڑا سبب ان کوتاہ بین مشیر ہی تھے۔
سیّد یوسف رضا گیلانی حسنی حسینی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت محض دُنیاوی تجربہ کے سبب ہی نہیں بلکہ اُن کے آباﺅ اجداد کے حصے میں آنے والی روحانی منازل کے بھی مرہون منت ہے۔ وزیراعظم گیلانی کی رگوں میں صالحین‘صوفیاءاور مردان دل ونگاہ کا خون دوڑتا ہے۔اُمید ہے کہ وہ اس قوم کے لئے دُعا اور دوا دونوں تحفے مہیا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ”اَمرُھُم شُورٰی بَینَھُم“کے فرمانِ خداوندی کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے میں اس وقت جناب وزیراعظم کی خدمت میں حضرت امیر تیمورؒ صاحب قرآن کے حوالے سے ایک قول پیش کر رہا ہوں۔آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے والے عظیم تیمورؒ نے اُمور سلطنت چلانے کےلئے مرُشد کی طرف سے ملنے والی نصیحت کا یوں تذکرہ کیا ہے‘
”اے تیمور! جو سلطنت بادشاہ کے غوروفکر اور اصحاب مشاورت کے مشورے سے خالی ہو وہ اس جاہل شخص کی مانند ہے جس کی گفتارو کردار کا انجام پشیمانی اور مذامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ امور مملکت کے دس میں سے نو اُمور تدبر و مشاورت اور فکر وتامل پر مبنی ہوتے ہیں۔“
ہم اُمید کرتے ہیں کہ جناب یوسف رضاگیلانی محض اپنی پارٹی کی دلجوئی کے لئے کبھی سولوفلائٹ نہیں کریں گے اور اپنے اتحادیوں سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مشاورت کے اصولوں کو اپنائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہروقت یاد رکھیں گے“۔
” اور اس احسان کو یاد کرو جب تم آپس میں دُشمن تھے ‘ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے“۔