Apr
21
|
Click here to View Printed Statement
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر امارت اور غربت کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔ پاکستان کے دس فیصد امراءکے طبقہ کےلئے ملک کے چالیس فیصد وسائل مختص ہیںجبکہ غریب ترین بیس فیصد لوگوں کو مُلکی وسائل کا صرف دس فیصد حصہ ملتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے بسنے والوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوا ہے اور مُلک کے اندر ایک نئی قسم کا طبقہ اشرافیہ پیداہوگیا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹیں دفتری اعدادوشمار پر مبنی ہوتی ہیں اور شماریات کا دارومدار روایتی نوعیت کے سروے پر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام میں سے اسیّ فیصد ایسے لوگ ہیں جن کو مہنگائی‘ غربت اور محدود آمدن نے نڈھال کر رکھا ہے۔ ستم برائے ستم یہ کہ ان اسیّ فیصد پاکستانیوںمیں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو تنگدستی اور محرومی کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کئے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے حقوق کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غربت یا امارت خدا کی طرف سے آتی ہے اور غریب کی آنے والی نسلوں کو بھی غریب ہی رہنا ہے۔
یہ نہیں کہ پاکستان کا غریب اور پسماندہ طبقہ محنت سے گھبراتا ہے ۔ ہرگز یہ تصور ٹھیک نہیں ہوگا۔ اصل حقائق تو یہ ہیں کہ پاکستان کے غریب غرباءسخت محنتی اور جفاکش لوگ ہیں۔آپ کسان کو دیکھ لیجئے وہ چلچلاتی دھوپ اور شدت کے جاڑے میں بھی اپنے کھیتوں میں بیچ بوتا ہے‘ راتوں کو جاگ کر آبپاشی کرتا ہے اور اپنی فصلوں کی اپنی اولاد سے بڑھ کر حفاظت کرتا ہے لیکن کسان کی تمام ایمانداری‘مشقت اور باقاعدگی کا حاصل کیا ہے؟ کسان سے میری مُراد پانچ ایکڑ اراضی کے مالک وہ لوگ ہیں جو کھیت مزدور بھرتی نہیں کرسکتے اور اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے سرنجام دیتے ہیں ۔ بڑے بڑے زمینداروں یا جاگیرداروں کا معاملہ اور ہے۔
مزدور کس قدر محنتی ہے۔ سر پر ٹوکری اٹھا کر تیسری چوتھی منزل پر اینٹیں اور ریت پہنچانے والے پھولی رگوں کے ساتھ زور آزمائی کرنے والے ان مزدوروں کی تمام عمرمحنت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ عُمر ڈھلتے ہی مزدور کو مزدوری ملنا بند ہوجاتی ہے ۔ بارش یا ہڑتال کے باعث دیہاڑیاں لگنا بند ہوجاتی ہیں۔ بوڑھاپے میں مزدور کے لئے نہ کوئی فنڈ ہے نہ پنشن۔ دوادارو تک مفت نہیں ملتا۔ بچوں کو پالنا تو جوئے شیرلانے کے برابر ہے خود اکیلا مزدور اپنا خرچہ پورا نہیں کرسکتا۔ تین چار سو روپے دیہاڑی لے کر وہ آٹا خریدے‘گھی لے کر جائے یا سبزی کے دام اداکرے۔
حکومت نے اپنے طور پر حاتم طائی کی قبرپر لات مارتے ہوئے مزدور کی کم از کم ماہانہ آمدن چھ ہزار روپے کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق چھ افراد کے کنبے کو روزانہ 180 روپے کی صرف روٹیاں درکار ہیں۔ چھ ہزار میں سے باقی چھ سو روپے بچتے ہیں۔ سالن کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اور تعلیم ‘ صحت‘ مرگ اورشادی بیاہ کے اخراجات محض خواب بن جاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ چھ ہزار حقیقت میں چھ ہزار نہیں ہیں۔ پاکستانی روپے میں مصنوعی پھیلاﺅ چودہ فیصد ہے۔گویا آج کا سو روپیہ اصل میں صرف پچھتر روپے ہیں۔ دل پر ہاتھ کر بتایئے کہ اس ملک کے غریبوں پر زندگی کتنا بڑا عذاب بن کر گزر رہی ہے !
روزگار‘معاشی خوشحالی اور قومی ترقی کے تمام تر دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اگر پاکستان کا عام شہری پورے جذبے کے ساتھ مُلکی ترقی میں حصہ نہیں ڈالتا۔ عوام اس وقت تک ناامیدی اوریاسیت کا شکار رہیں گے جب تک ان کی بنیادی ضرورتیں ریاست کی طرف سے پوری نہیں کی جاتیں۔ صحت‘ تعلیم ‘ تحفظ اور روزگار یہ کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کے خزانے بھرتے اور خالی ہوتے رہتے ہیں۔ جو حکمران آتے ہیں وہ لچھے دار تقریروں اور دلفریب نعروں کے ساتھ عوام کی بھوک کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اس ملک کے ایک دو فیصد امراءمیں سے کوئی غریب ہوگیا ہو۔ ہر دور پہلے سے موجود طبقہ امراءکو مزید مراعات بخش کر رخصت ہوجاتا ہے۔
جب تک اس ملک کے امراءاپنی جائز ناجائز دولت میں سے معقول حصہ نکال کر غریبوں کی طرف کسی سود مند طریقے سے منتقل نہیں کرتے تب تک گڈگورننس کا کوئی خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ مُلک میں انارکی اور بے چینی اسی وقت ختم ہوگی جب امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج کو کم سے کم کیا جائے گا۔ ورنہ عوام کی اکثریت یا تو بھوک سے مر جائے گی یا انتقام کی راہ اختیار کرکے نت نئے جرائم کو جنم دے گی۔ غریب اگر غربت سے تنگ رہے تو امرا کا طبقہ اپنی امارت کے باوجود سکھ کی نیند نہیں سوسکے گا۔ اسلام ہمیں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی نہ صرف ترغیب نہیں دیتا ہے بلکہ ایسا کرنے کا حُکم دیتا ہے۔قرآن پاک کے میں ارشاد ہوتا ہے ۔
”ضرورت سے جو کچھ زائد ہے وہ (ضرورتمندوں کی بہتری کیلئے ) خرچ کردو !“
حکومت اور طبقہ اشرافیہ کو اس خدائی حکم کی طرف انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں فی الفور توجہ دینی چاہئے ورنہ خلقِ خدا اس استحصالی نظام کی ہی باغی ہوجائے گی۔