May
03
|
Click here to View Printed Statement
حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒ کا فرمان ہے کہ تین گروہ ملک اور معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں بے علم حکمران، بے عمل عالم اور توکل سے محروم فقرائ۔ دیکھا جائے تو پاکستان کو آج ان تین گروہ سے بگاڑ اور مشکلات کا سامنا ہے۔ حکمران حکومت میں آکر معاشی حقائق اور ان کے حل کے علم سے لاعلمی کا اظہار،
مختلف علوم میں عالم کا درجہ حاصل کرنے والے قول و فعل کے تضاد اور بے عملی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں جبکہ فقراءکہلانے والے اللہ توکل کے عظیم فلسفے اور اس کی روح سے محروم ہیں۔ بات کچھ کرنا چاہیں تو اللہ کے ولیوں کے اقوال دل و دماغ میں اتر آتے ہیں ورنہ قصہ تو اتنا ہے کہ گورنر سٹیٹ بنک شمشاد اختر نے معاشی صورت حال کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دور میں معیشت کی صورت حال کے حوالے سے غلط تاثر دیا گیا۔ سٹیٹ بنک نے حکومت کے ذمہ داروں کو اس وقت بھی حقیقی صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا لیکن ہماری بات پر توجہ نہ دی گئی۔ اس موقع پر سینٹ کی کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ قرضوں کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط قبول نہ کی جائیں خراب صورت حال کے ذمہ دار سابق نگران وزیر خزانہ اور دیگر افراد کو بھی طلب کر کے ان سے بازپرس کی جائے اور موجودہ معاشی صورت حال کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔
ہمارے یہاں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اقتدار سنبھالنے والوں کی طرف سے اپنی پیش رو حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانا، انہیں قومی مفادات کے منافی قرار دینا بالخصوص معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کی تمام مشکلات و مسائل کو اس کے کھاتے میں ڈالنا ایک معمول کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک بلاشبہ ایک صاف گو ،مخلص اور باصلاحیت شخصیت کی مالک ہیں سابقہ دور حکومت میں وہ بریفنگ کے علاوہ سٹیٹ بنک کی رپورٹوں پر بھی کسی دباﺅ کے بغیر کھل کر اظہار خیال کرتی رہی ہیں اس لئے کہ حقائق کو منظر عام پر نہ لانے کے لئے ان پر کسی قسم کا کوئی دباﺅ نہیں تھا۔ انہوں نے خود اپنی رپورٹوں میں بھی اس آزادی کا اعتراف کیا۔ یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے تو پھر آخر انہوں نے اس دور میں معیشت کی صورت حال کے حوالے سے غلط تاثر دینے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے ان کی بات پر توجہ نہ دیئے جانے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیوں نہ کیا؟ اس وقت ان کے بیان سے ایک منفی تاثر سامنے آیا ہے حالانکہ سابقہ دور میں سٹیٹ بنک کی اچھی اور امید افزا رپورٹس بھی سامنے آتی رہیں۔ آج بھی حکومت کی صحیح سمت میں رہنمائی اور ٹھوس معلومات کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔ عوام کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہیں روزمرہ استعمال کی اشیاءاور اشیائے خورد و نوش نہ صرف بآسانی دستیاب ہوں بلکہ وہ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کا بھی شکار نہ ہونے پائیں ۔ اس کے علاوہ روزگار، تعلیم، رہائش، علاج معالجہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی عوامی مسائل میں سرفہرست ہیں لہٰذا اب حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے ان مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح قرار دے کر ان کی مشکلات کا ازالہ کرے۔
عام انتخابات سے پہلے آج کے حکمران اپوزیشن میں شامل تھے لہٰذا ملکی صورت حال کے حوالے سے انہیں یہ جاننے میں کوئی مشکل نہ تھی کہ برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں انہیں کیسی معیشت ورثے میں ملے گی اور وہ کب تک اسے درست کر کے عوام کو خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کر سکیں گے۔ اب نہ صرف تمام حکومتی حلقوں بلکہ ہر محکمہ سے اس قسم کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کو ہر شعبہ سے متعلق بڑے سنگین مسائل اور بحران ورثے میں ملے ہیں پھر عوام میں یہ تاثر بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ محض سابقہ حکومت کی خامیوں اور کمزوریوں کا ذکر تو ان کے مسائل کا حل نہیں۔ کیا موجودہ حکومت صرف گندم اور آٹے کے بحران پر قابو پا سکی ہے؟ کیا اس نے گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کا سدباب کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے؟ کیا شہریوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو گیا ہے؟ اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری آگئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قوم کے نزدیک معاشی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے حکومتی مو¿قف کا کوئی قابل فہم جواز نہیں۔ سابقہ حکومت نے پارلیمنٹ کے بغیر تین سال کی مدت اقتدار پوری کی اور پھر 5سال تک ایک منتخب اور بااختیار حکومت برسرِ اقتدار رہی۔ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس نے قومی معیشت کو نہ صرف پٹڑی پر چڑھا دیا ہے بلکہ زرمبادلہ میں ریکارڈ اضافے کے علاوہ ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے بھی نجات دلا دی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر حکومت نے آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ واپس بھی کر دیا۔ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا اور بیرونی ممالک سے ترسیل زر میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کرتے رہے جبکہ سابقہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے پاکستان کو دیوالیہ قرار دیئے جانے کے خدشات سامنے آنے لگے تھے۔ حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دورہ واشنگٹن کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت سابقہ حکومت کی مالیاتی پالیسی جاری رکھے گی ۔ اگر سابقہ حکومت کی مالیاتی پالیسی اس قابل اور قومی مفاد کے مطابق نہیں تھی تو پھر اسے جاری رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیا وزیر خزانہ کا یہ بیان سابقہ حکومت کی مالیاتی پالیسی کی تحسین کے زمرے میں نہیں آتا۔ عوام تو اصلاح احوال کے متمنی ہیں اب ایوان اقتدار میں بیٹھنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ اورملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرنے کے علاوہ سیاسی اور سماجی حالات کو درست کریں محض سابقہ حکمرانوں کے خلاف الزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیں نہ عوام اس سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں اشیائے خورد و نوش کی گرانی بالخصوص گائے اور بکری کے گوشت کی قیمت میں ہوشربا اضافے کی ایک بڑی وجہ پولٹری کی صنعت کو درپیش وہ مسائل ہیں جن میں سرِ فہرست پولٹری انڈسٹری کو مرغیوں کی خوراک کے لئے 45 ہزار ٹن ماہانہ گندم کی فراہمی ہے جو حکومت فراہم نہیں کر پا رہی ۔یہ صورت حال برقرار رہی تو صارفین کی مشکلات میں اضافہ ان کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کرے گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گوشت تو درکنار دالوں اور روزمرہ استعمال کی سبزیوں کی خریداری بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہے لہٰذا حکومت کو ٹھوس عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں کے منتخب ارکان ، ماہرین اقتصادیات اور عوامی مسائل پر نظر رکھنے والے حلقوں سے مشاورت کا اہتمام کر کے گرانی کی روک تھام اور عوام کی قوت خرید کو منفی اثرات سے بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ وسیع تر قومی اور ملکی مفادات کے پیش نظر انہیں صدر کے اس موقف کو ایک رہنما اصول کے طور پر اپنانا چاہئے کہ سیاسی استحکام پیدا کئے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے اور نئی حکومت کو محاذ آرائی اور مزاحمت کی پالیسی ترک کر کے اور اختلافات کو بھلا کر مشاورت سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ حکومت کا کام شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا، ٹھوس پالیسیوں کے اجراءسے عوام کی فلاح و بہبود، ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کی جلد تکمیل ، ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا اور جمہوری اداروں میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔ صدر نے حکمرانوں کو ان کی بنیادی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے انہیں جو مشورہ دیا ہے وہ نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے بلکہ اس سے جمہوری اداروں اور جمہوری اقدار کو بھی فروغ و استحکام حاصل ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کی مشکلات کے ازالے سے سیاستدانوں اور جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا جو سیاست کے بنیادی مقاصد میں آتا ہے۔ وطن عزیز کو اس وقت اندرونی اور بیرونی محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومت اور تمام اپوزیشن حلقوں کے درمیان وسیع تر مشاورت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ ورنہ
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے