Jul
04
|
Click here to View Printed Statement
تین طرح کے گروہ پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ پہلا گروہ واضح دشمنوں پر مشتمل ہے۔ بھارت سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے لابنگ کے ادارے دنیا بھر میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ اور یورپ ہی نہیں بعض عرب ممالک میں بھی بھارتی نواز اداروں نے اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ یہ ادارے اور ان سے وابستہ لوگ پاکستان کے وجود کے خلاف نت نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔”پاکستان ناکام ریاست ہے“ ۔
”پندرہ بیس سالوں میں پاکستان ٹوٹ جائے گا“۔ ”پاکستان پر امریکہ حملہ کرنے والا ہے “۔” پاکستان کا روپیہ ڈوبنے والا ہے“۔ یہ وہ نفسیاتی حملے ہیں جو آئے روز دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ ہمارے معصوم اوورسیز پاکستانی ان حملوں کا پہلا ہدف ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے روزگار کے سلسلے میں دیار غیر میں پھنسے ہوتے ہیں۔ ان ہرزہ رسائیوں کا کوئی جواب دے نہیں سکتے۔ اس لئے گھبراتے ہوئے پاکستان آتے ہیں اور یہاں آکر پروپیگنڈے” کو حقائق“ کے طور پر پیش کرکے مایوسی کی فضاءقائم کردیتے ہیں۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ان پاکستان دشمن اداروں کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا حصہ وطن مخالف پروپیگنڈے کو اخبارات اورنیوز بلیٹن کا حصہ بنا کر ”آزادی صحافت“ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ چونکہ ذرائع ابلاغ میں ایڈیٹوریل بورڈ کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے اس لئے ”چیک اینڈ بیلنس“ کا کوئی فارمولا ہی نہیں بن پا رہا۔ ”بریکنگ نیوز“ کے چکر میں ہر ملی اور اخلاقی ”حد“ کو بریک کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا رجحان جڑ پکڑ چکا ہے۔ اگر ہمارے ذرائع ابلاغ پاکستان مخالف خبر اچھالنے کی بجائے حب الوطنی کو سامنے رکھیں تو شائد دشمنوں کے پروپیگنڈے کو عوام میں پذیرائی حاصل نہ ہوسکے۔ امید رکھنی چاہئے کہ ہماری صحافت اس حوالے سے جلد ہی قومی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہوجائے گی۔
دوسرا گروہ سابق دور حکومت میں شامل رہنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ وہ موجودہ حکومت اور سیاسی گروہوں کو ناکام ثابت کرنے کی دھن میں پاکستان کے وجود اور سا لمیت کے خاتمے کے اندیشے پھیلاتے رہتے ہیں۔ نااُمیدی اِن کا واحد اورمﺅثر ترین ہتھیار ہوتا ہے۔ عوام میں کسی نہ کسی طرح سے حالاتِ حاضرہ کے بارے میں بے چینی پیدا کرنا حزب اختلاف کا سیاسی حق ہوتا ہے لیکن انہیں یہ حق استعمال کرتے وقت اپنے پاﺅں ضرور بچانے چاہیں۔ حکومت کی مخالفت بجا لیکن پاکستان کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ میں تمام سیاستدانوں کے ایسے بیسیوں بیانات حوالے کے طورپر درج کرسکتا ہوں جن کا فائدہ صرف اور صرف پاکستان مخالف قوتوں کو ہوتاہے۔ خصوصاً جب یہ لوگ نجی محفلوں میں ”سینہ گزٹ“ چلاتے ہوئے” حالات ٹھیک نہیں ہیں…. ملک کا اب اللہ ہی حافظ ہے“ جیسے جملے ادا کرتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ ان کا منہ نوچ لیا جائے۔ اتنی بڑی گاڑی‘ اتنا بنک بیلنس‘ اتنی بڑی پراپرٹی…. ہر طرح کے اللّے تللّے پھر بھی ان کے نزدیک ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اگر ٹھیک ہوتے تو شائد اجلے لباس پہنے یہ لوگ نمرود اور شداد بن چکے ہوتے۔
تیسرا گروہ معصوم ذہنوں پر مشتمل ہے یہ بڑے درد دل کے ساتھ ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر کُڑھتے رہتے ہیں ۔ یہ کسی ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے ہوتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ساٹھ سال پہلے معجزاتی طورپر آزاد ہونے والاپاکستان امریکہ اور یورپ کی طرح ترقی یافتہ بن جائے ۔ لیکن انہیں قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال کا علم نہیں ہوتا ۔ ایک طرف تو یہ گروہ اپنے لیڈروں کو ایمانداری اوراہلیت کے حوالے سے خلفائے راشدینؓ کے معیار پر پرکھتا ہے اور دوسری طرف ترقی کے اعتبار سے بھارت ‘چین اور جاپان کے برابر تولتا رہتا ہے۔
چونکہ یہ نیک نیت لوگ ہیں اس لئے ان کی رائے کا احترام ہونا چاہئے ملکی حالات کو بہتر سے بہتر بنانے کی تجاویز پر عمل پیرا رہنا چاہئے۔ ان پیارے پاکستانیوں سے بھی صرف اتنی گزارش ہے کہ لیڈر شپ اور مینجمنٹ کی خامیوں سے دلبرداشتہ ہو کر وہ ملک سے بددل نہ ہوں۔
چند روز قبل پی ٹی سی ایل کے سابق چیئرمین میاں جاوید صاحب کے گھر ایک نشست تھی۔ انگریزی کے صاحب طرز لکھاری جناب طارق جان‘لیتھونیا کے اعزازی کونسل جنرل اور دیارِ غیر میں پاکستان کی مدللّ آواز جناب مسعود خان اور سب سے بڑھ کر تحریک پاکستان کے دوران پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما جناب نسیم انور بیگ بھی موجود تھے۔ لاہور سے جناب ڈاکٹر چوہدری صاحب بھی اس محفل میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیس برس کویت میں گزارے اور اب کچھ عرصہ سے پاکستان میں ہیں اور لاہور میں میڈیکل سے وابستہ کاروبار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مُلکی حالات کے بارے میں بڑے پریشان دکھائی دیئے۔اُن کے خیال میں پاکستان کو کم از کم کویت کی طرح دمکتا چمکتا ملک بن جانا چاہئے تھا۔مجھے ان کی یاسئیت بھری گفتگو سن کر بڑا تاسف ہوا۔ خدا نے انہیں اس ملک کے طفیل بہت کچھ دیا ہے۔ کاش کہ وہ اپنے افکار کو ازسرنو ترتیب دیں۔
جناب طارق جان صاحب نے بڑی اہم بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں مسلمان کبھی بھی محکوم نہیں رہے۔ 1857 میں انگریزوں نے فریب کاری کے ذریعے مسلم ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ لیکن 1947ءمیں پاکستان کی شکل میں مسلمانوں کو ایک بار پھر حکومت بنانے کے موقع مل گیا۔ ہندوستان پر حکومت کرنا مسلمانوں کا حق تھا۔پاکستان اسی حق کا اظہار ہے۔ میاں جاوید صاحب نے بتایا کہ وائس آف امریکہ ریڈیو سروس کی طرف سے بلوچستان کے ایشو کو اچھالنے کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر کس ملکی قانون کے تحت غیر ملکی ریڈیو یہاں اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں؟
اس نشست کی ایک اہم بات یہ تھی کہ ”pakmediaalert.wordpress.com“ کے نام سے ایک ویب سائیٹ لانچ کی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہونے والاپاکستان مخالف مواد سامنے لایا جاتا ہے۔
آخر پہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان نہیں اس کی قیادت ناکام ہوسکتی ہے۔ ملک ٹوٹ جانے کی باتیں کرنے والے ملک بننے کے ہی مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے پانچ برس میںہی پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔”پِن“ کی جگہ کیکر کے کانٹے استعمال کرنے والے لوگوں نے ایٹم بم بنا لیا۔ یہ بات دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ حَسد کی آگ میں جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ پاکستان سولہ کروڑ کلمہ گو عوام کے لئے پائیندہ رہے گا! لَاتَقنَطُو مِن رَحمة اللہ!“۔