Jul
28
|
اسپین جسے مسلم تاریخ میں ہسپانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ عیسائیت کا مرکز و محور ہے۔ اس ملک کے دارالحکومت میڈرڈ میں گزشتہ دنوں دنیا بھر کے توحید پرستوں کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا۔ مسلمان ‘یہودی اور عیسائی وفود نے تین روز تک یہاں قیام کیا‘دنیا کو درپیش اخلاقی بحرانوں پر گفتگو ہوئی اور ایسے بحرانوں پر قابو پانے کے لئے تینوں الہامی مذاہب کی مشترکہ ہدایات تلاش کرنے کی جستجو کی گئی۔
گزشتہ برس مکہّ کے اندر ورلڈ مسلم لیگ کے زیراہتمام بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال یہ کانفرنس زیادہ بڑے پیمانے پر میڈرڈ میں منعقدکی گئی۔ کانفرنس کامشترکہ اعلامیہ بھی منظر عام پر آچکا ہے اور ورلڈ مسلم لیگ اس مشن کو مزید آگے بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ذاتی طور پر ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے لئے یہ قلبی اطمینان کی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح کی اس اہم ترین کانفرنس کے روح رواں کوئی عیسائی یا یہودی رہبر نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات خانہ کعبہ اور روضہ رسول کے محافظ و خادم اور سعودی عرب کے فرمانروا عالی مرتبت شاہ عبداللہ کی ذات گرامی ہے۔ گومیڈرڈ میں ہونے والے اہمیت کے اعتبار سے اس بے مثال اجتماع میں ورلڈ جیوش کانگریس اور ویٹی کن کے مرکزی رہنماﺅں نے بھی شرکت کی لیکن اس کانفرنس میں اگر شاہ عبداللہ خود تشریف نہ لاتے تو شائد اس کے مثبت اثرات محدود رہ جاتے۔حکومتِ اسپین کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ بعض انتہا پسند گروہوں کی شدید مخالفت کے باوجود اس بین المذاہب بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے اورکنگ آف اسپین نے آگے بڑھ کر سعودی فرمانروا کاخود استقبال کیا۔
گزشتہ آٹھ برس کے واقعات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ بعض در پردہ ہاتھوں نے دنیا کے طاقتور ممالک کومسلمانوں سے متنفر کرنے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسلامی دنیا کے اکثر ممالک آزادی کی نصف صدی ہی گزار پائے ہیں کہ ایک بار پھر عالمی جارحیت کی زد میںہیں۔ اسے تجاہل عارفانہ ہی کہا جائے گااگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے ایسی کوئی اشتعال انگیز حرکت نہیں ہوئی جس نے عالمی قوت کو چڑھ دوڑنے کا جواز بخشا ہو۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں ایک طبقہ ماضی مرحوم کی شان و شوکت کو جلد از جلد واپس لانا چاہتا ہے اور اس کے لئے جہاد بالسیف اور خودکش حملوں کا راستہ اختیار کرچکا ہے۔ یہ سوال ہمیشہ جواب طلب رہے گا کہ جن لوگوں نے مسلم اُمہّ کو قلم کے دور میں تلوار اٹھانے اورامن کے عرصہ میںخون بہانے کی راہ دکھائی ہے وہ معصوم ہیں یا منصوبہ ساز! وقت نے ثابت کردیا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین اپنے مخصوص نظریات کی بدولت معاشرے سے کٹ گئے۔صدام حسین اپنی ہٹ دھرمی اور مہم جوئی کے باعث بدترین انجام سے دوچار ہوئے اور عراق غیر ملکی فوجوں کی آماجگاہ بن گیا۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکی اور آج طالبان افغانستان کو پھر سے آزاد کرانے کے جانگسل عمل سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیل کے وجود کو برداشت نہ کرنے کےنعروں نے فلسطینی ریاست کے قیام کی منزل کو روزبروز دور کر رکھا ہے ۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے ان بہادر جہادیوں کے سبب مسلمانوں کو ہر روز ایک نئی شکست اور حزیمت سے واسطہ پڑتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ تھا کہ مسلم امہ کو عیسائیت اور یہودیت کے خلاف کسی غیر ضروری جنگ میں جھونکنے کی بجائے اس امت کی ترقی اور معاشی بالاتری کا کوئی منصوبہ بنایا جاتا اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنائیت کا احساس دلا کر قوموں کی اٹھان کے لئے ضروری وقت اور وسائل مہیا کئے جاتے لیکن اس کی بجائے جس کسی نے بین المذاہب مکالمے کی بات کی اسے پٹھوّ اور غدار کا نام دے دیاگیا۔
خدا کا صد شکر کہ امت مسلمہ کے حقیقی خیرخواہ خادم حرمین شریفین نے مصیبت میں پھنسی امت مسلمہ کے دور اندیش رہبر ہونے کا تقاضا پورا کیا ہے ۔ انہوں نے میڈرڈ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر جو خطبہ دیا وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام توحید پرستوں کے لئے ایک راہ عمل بھی ہے۔ شاہ عبداللہ نے اسلام کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا‘
”اسلام ایک عظیم مذہب ہے جو مکالمے پریقین رکھتا ہے۔ امن اور ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے احترام کا بھی حکم دیتا ہے۔ اسلام کاانتہا پسندی یا دہشتگردی کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں“ خادم حرمین نے قرآن پاک کی آیات تلاوت کیں جن کا ترجمہ ہے کہ ” خدا نے آدم کو پیدا کیا اور پھر اسے گروہوں اور قوموں میں تقسیم کردیا تاکہ یہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں“ شاہ عبداللہ نے کہا کہ بین المذاہب مکالمے پہلے بھی بہت ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد مختلف الہامی مذاہب کے درمیان متنازعہ نکات کی تلاش ہوتا تھا۔ کاش کے یہ محسوس کیا جاتا کہ ہر مذہب کسی نہ کسی سچائی کا علمبردار ہوتا ہے۔ شاہ عبداللہ نے مذاہب کے درمیان مشترکہ ایشوز کا حوالہ دیتے ہوئے نہایت اہم نکتہ اٹھایا ” ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ آج ہمارے یہاں ملنے کامقصد باہمی اختلافات کو کم کرنا ہونا چاہئے کیونکہ ہمارا مشترکہ اعتقاد عقیدہ توحید ہے“۔ شاہ عبداللہ نے کانفرنس کے یہودی اور عیسائی شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج انسانیت کو مذہب کی طاقت سے مضبوط کیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ اخلاقی مسائل‘ ٹوٹتے ہوئے خاندان اور عدم برداشت بہت بڑے چیلنجز ہیں۔
کہا جاتاہے کہ شاہ عبداللہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والی مسلم ورلڈ لیگ کا مقصد یورپ اور مسلم دنیا کو قریب لانا ہے تاکہ یورپی اور عیسائی دنیا میں نائن الیون کے بعد پیدا ہوجانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوسکے۔ توحید پرستوں کےلئے خادم حرمین کی سرپرستی عالمی امن کیلئے بلکہ دنیا کے چھ ارب انسانوں کےلئے خوشگوار ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوگا! ۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔”اے اہل کتاب آﺅ ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو رب نہ مانیں گے“۔عیسائی اور یہودی مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ محترم شاہ عبداللہ کے مفاہانہ طرز ِفکر کو اپنے پیروکاروں تک پہنچائیں تاکہ مسلم بیزاری کی عمومی فضاءکو ختم کرکے امن کے عمل کو فروغ مل سکے!۔