Nov
12
|
Click here to View Printed Statement
حکمت مومن کی میراث ہے لیکن افسوس کہ مسلم امہ بحیثیت مجموعی اس میراث سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد آزاد ہونے والے مسلم ممالک ابھی پوری طرح کمر سیدھی بھی نہ کرپائے تھے کہ جلد باز جہادی گروہوں نے دشمنوں کو چوکنا کردیا بلکہ حملہ آور ہونے کی دعوت دے دی ہے۔ اور آج حالت یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان مشکوک نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ‘شکست وریخت اور خانہ جنگیوں نے چاروں طرف سے انہیںگھیر لیا ہے اور ہم ایک ایسی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی ہم نے کبھی تیاری ہی نہیں کی تھی۔
پاکستان تیسری ممکنہ عالمی جنگ میںٍ صرف میدانِ جنگ کا ہی کردار ادا کرسکتا ہے۔ خطے میں امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافے اور نیٹوفورسز کے اژدھام کے بعد روس‘ چین اور ایران زیادہ دیرخاموش نہیں رہیں گے۔ اور اگر آج ان تینوں ممالک میں سے کوئی ملک چھپ چھپا کر امریکہ کیخلاف مسلح مزاحمت کرنے والے گروں کی مدد کر رہا ہے تو یہ حمایت آئندہ چند برسوں میں اعلانیہ طور پر سامنے آجائے گی اور یہی وہ مقام ہوگا جب امریکہ اور یورپ ایک طرف کھڑے ہوں گے اورمشرق کی طاقتیں دوسری جانب۔امریکہ اور روس کے درمیان جس سرد جنگ کا حال ہی میں بظاہر خاتمہ ہوگیا ہے‘حقیقت میں یہ عارضی اختتام ایک گرم جنگ کا پیش خیمہ ہے۔عسکری ماہرین نائن الیون سے پہلے ممکنہ تیسری عالمی جنگ کا مرکز سنٹرل ایشیاءکو قرار دیتے تھے لیکن افغانستان کے اندر‘ چین کے بارڈر پر اور پاکستان کی سرحدوں پر یورپی اور امریکی فوجوں کا اجتماع دیکھ کر اور روس کی نشاة ثانیہ کے احوال جان کر پیشن گو حلقوں کو یقین ہوگیا ہے کہ آئندہ کی ممکنہ تیسری عالمی جنگ میں افغانستان‘پاکستان اور ایران کے قبائلی علاقے ہی مرکز جنگ بنیں گے۔
پاکستان کی سیاسی قیادتیں پہلے ہی اعلان کرچکی ہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ کی یہ حالت وقتی نہیں بلکہ برسوں پر میحط ہوسکتی ہے۔ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ اس حالت میں امور سیاست وریاست چلانے اور ممکنہ تباہی سے حتی الوسع بچنے کے لئے جامع جنگی حکمتِ عمل ترتیب دی جائے۔
یہ اچھا ہوا کہ پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری کے امریکہ جانے سے چند گھنٹے قبل ہمارے سپہ سالار اعظم جنرل اشفاق پرویز کیانی چین کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ اطمینان کا یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے چین جانے سے قبل صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان سے اپنے دورہ چین کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور اسی طرح جناب زرداری نے امریکہ جانے سے قبل وزارتِ خارجہ کی طرف سے تمام خارجی امور پر سیر حاصل معلومات حاصل کیں۔ ظاہر ہے کہ جناب صدر نے پہلے سے طے شدہ امور اور خیالات کے مطابق ہی امریکہ میں امریکی صدر سمیت دیگر عالمی سربراہوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ”فرینڈز آف پاکستان“ کا کامیاب اجلاس ہونا ہی اس امریکی دورے کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ہمارے آرمی چیف نے جس طرح چین کے عسکری رہنماﺅں کے ساتھ پانچ روز گزارے اسے بھی کامیاب ترین دورہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ سوال بڑا احمقانہ ہے کہ صدر زرداری یا آرمی چیف نے اپنے دوروں کے دوران پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے کیا حاصل کیاہے؟ حالتِ جنگ میں دوستوں اور دشمنوں کے خیالات پڑھنا اور ان کے ارادروںکو بھانپنا ہی معنی خیز حصول ہوتا ہے۔امریکہ اور چین کے دوروں کے بعد پاکستان ا س خوفناک صورتحال سے نکلنے کے لئے جو راستہ اختیار کرے گا وہ یقینا بہتر ہوگا۔
سب جانتے ہیں کہ جب چاروں طرف سے یلغار کا اندیشہ بڑھ جائے تو پہلی کوشش مخالف محاذوں کی تعداد میں کسی نہ کسی طرح کمی ہونی چاہیے۔ پاکستان کو مشرق اور مغرب دونوں سرحدوں سے یلغار کا اندیشہ لاحق ہوچکا ہے۔ ایک طرف بدمست ہاتھی فسادی گروہ کے خاتمہ کے پردے میں ہماری جغرافیائی وحدت کو روند ڈالنا چاہتا ہے اور دوسری طرف کا دشمن کشمیر کا معاملہ ہمیشہ کے لئے دفن کردینے کی تاک میں بیٹھا ہے۔ ایک دشمن ہم سے دس گنا پڑا اور دوسرا دوست نما دشمن ہم سے ہزار گنا طاقتور۔ ہم دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی لڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ایک طرف سے اعتماد سازی کی ڈوری برقرار ہے اور دوسری طرف سے جارحیت کے عملی مظاہرے ہیں۔ حکمت عملی یہی ہے کہ فی الحال مشرق کی سرحد پر محاذ ٹھنڈا ہی رہے اور اگر مغربی سرحدوں پر حالات بہت ہی بگڑ جاتے ہیں تو کم از کم ہمیں اپنے دفاع کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل میسر رہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے شائد اسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہی بھارتی صدر من موہن سنگھ کو گلے لگایا اور فائربندی جیسے اقدامات کو جاری رکھنے کا اعلامیہ جاری ہوگیا۔
پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ مختلف طاقتوں کے آلہ کار بن جانے والے ماضی کے جہادی اور آج کے فسادی گروہوں سے نپٹنا ہے حکومت کو داد دی جانی چاہیے کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں پہلی بار فاٹا اور مالاکنڈ ڈویژن میں وہاں کے مقامی قبائلی عوام نے ”طالبان“ کے خلاف ہتھیار اٹھا کر علاقے خالی کرانا شروع کردیئے ہیں۔ اگر یہ حکمتِ عملی جاری رہتی ہے اور امریکی مقاصد کے لئے کام کرنے والے ان فسادی گروہوں سے ہم چھٹکارا پالیتے ہیں تو پھر شائد بدمست ہاتھی کے پاس پاکستان پر باقاعدہ حملہ آور ہونے کا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔ حالتِ جنگ میں بہترین حکمتِ عملی ہی ہمیں بڑی تباہی سے بچا سکتی ہے۔