Nov
15
|
Click here to View Printed Statement
کسی امر میں دو افراد کا اشتراک جو قوم و ملک ‘مذہب و ملت ‘پیشہ یا نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے ان میں سب سے بڑھ کر وہ اشتراک ہے جس کی بنیاد رحم مادر ہے۔عربی زبان میں قرابت کا حق ادا کرنے کو وصل ‘رحم ملانا یعنی صلہ رحمی کہتے ہیں۔ یہ خالق کائنات کا پیدا کردہ اشتراک ہے جس کا توڑنا انسان کے بس میں نہیں۔ اسی لئے اس کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں پر بہت زیادہ ضروری قرار دی گئی ہے۔
اس لئے قرآن پاک میں بارہ مقامات پر رشتہ داروں سے حسن سلوک ‘ان کی مالی امداد واعانت اور ان سے عفوو درگزر کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ کی نظر میں اس کی قدر اہمیت ہے کہ خدائے واحد کی عبادت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورة النساءمیں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”اللہ کی بندگی کرو‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو“۔
اور جو لوگ اس فطری تعلق کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں فاسق کہا ہے اور اسے فساد فی الارض کے برابر گناہ قرار دیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
ترجمہ :اور جن قریبی رشتہ داروں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ انہیں کاٹتے ہیں اور زمین پر فساد کرتے ہیں تو یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“
رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ان کا حق ہے اور مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 26 میں جو فرمان باری تعالیٰ ہے:ترجمہ ”اور قرابت والے کو اس کا حق ادا کر“۔سورة البقرہ کی آیت نمبر 177 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ :” اللہ کی محبت میں اپنا مال قریبی رشتہ داروں کو دو۔“
غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کی قرابت کے لحاظ سے حسنِ سلوک کرنا بھی سنت نبوی علیہ الصلوة والسلام ہے۔ آپ نے فرمایا:
ترجمہ :” غیر مسلم اقرباءکے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے‘ میں اس کو بھلائی کے ساتھ زندہ رکھوں گا۔“
مالی اعانت:
قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں دو لفظ بار بار زیر مطالعہ آتے ہیں۔ ایک اانفاق فی سبیل اللہ جس کے معنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ہیں یعنی خدا کی راہ میں دینا اور دوسرا حکیم قرآنِ مجید میں والدین کے ساتھ اہل قرابت پر بھی مال خرچ کرنے کا ہے۔
ترجمہ:”اے نبی کہہ دیجئے کہ جو کچھ تم مال میں سے خرچ کرتے ہو‘ وہ والدین اور رشتہ داروں پر خرچ کرو“۔(سورہ البقرہ 215)
عدل واحسان کے ساتھ اہل قرابت کی امداد کا بطور خاص حکم دیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے۔
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ نے عدل و احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے“۔
کمال حسنِ سلوک:
بعض رشتہ داربغض وحسد کے باعث ہمیشہ شرانگیزی اور قطع رحمی پر آمادہ رہتے ہیں۔ ان کی زیادتی کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے اور ان سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ سرکار دوعالم کا ارشاد ہے:
”کسی شخص کا کمال یہ نہیں کہ وہ بھلائی کا جواب بھلائی سے دے بلکہ کمال یہ ہے کہ رشتہ دار اور اس سے بدسلوکی کریں اور وہ ان سے حسنِ سلوک کرے۔“ (بخاری ‘کتاب البر)
عفودرگزر:
اگر کسی رشتہ دار سے کوئی قصور سرزد ہوجائے تو صاحب ثروت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ بطور سزا اس کی اعانت سے اپنا ہاتھ روک لیں جیسا کہ خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے رشتہ دار مسطح بن اثاثہ کی مدد بند کردی تھی کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگانے والوں میں یہ بھی شریک تھا پھر جب یہ آیت اتری‘
”اور تم میں صاحب فضل اور دینوی وسعت والے لوگ اپنے رشتہ داروں اور مساکین کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں تو آپ نے اس کی امداد بحال کردی۔ امت مسلمہ کے اہل ثروت کو حکم ہے کہ ان کے مورال میں سوال کرنے والوں اور محروم رہ جانے والوں کا حق ہے۔“
” اور محروم رہ جانے والوں میں قرابت داروں کا حق فائق ہے اور ان کو دینے پر دہرا اجر ہے۔“ اس سلسلے میں فارسی مثل بھی ہے‘ اول خویش بعد درویش۔ جو ایک حدیث کا ترجمہ ہے ”یعنی خیرات اپنے گھر سے شروع کر۔“