Nov
21
|
Click here to View Printed Statement
فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے افتتاحی اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری نے نیویارک میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں ”فرینڈز“ سے ممکنہ توقعات کی وضاحت کر ڈالی تھی۔ صدر صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں کیش نہیں بلکہ سرمایہ کاری چاہیے۔ حالانکہ عمومی فضا یہی تھی کہ دولت مند ملکوں کے اجلاس میں پاکستان کو کم از کم دس ارب ڈالرز نقد مل جائیں گے۔
اچھا ہی ہوا کہ ہمارے دوستوںنے ہمیں مزید مقروض نہیں کیا اور ابوظہبی کے تکنیکی اجلاس میں پاکستان کے اندر صرف سرمایہ کاری کے ممکنہ شعبوں کاجائزہ لیا گیا۔ امید رکھی جارہی ہے کہ پاکستان کے ان دوستوں کا ماہ جنوری میں اسلام آباد کے اندر وزارتی سطح کا اجلاس سرمایہ کاری کے حوالے سے کوئی باقاعدہ اعلان کردے گا۔
پاکستان کے موجودہ ابتر مالی حالات میں بحیثیت قوم ہماری توقعات امریکہ سمیت دنیا کے تمام کھاتے پیتے ممالک سے وابستہ ہوجانا ایک قدرتی امر تھا۔ لیکن توقعات کو جائزہ حدود تک محدود رکھنا بھی ایک بالغ قوم کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ افسوس کہ ہم نے مالی بحران کی حالت میں خودداری کے تاثرات کو برقرار نہیں رکھا اور اپنے اوپر ”مانگت“ ہونے کا لیبل لگوا لیا ہے۔ حالانکہ تھوڑے صبر اور بچت کے ساتھ ہم بہتر وقتوں کا لطف اٹھا سکتے تھے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ چین کی قیادت ہمیں اس بحران سے نکالنے میں بے حد سنجیدہ تھی۔ پاکستان نے 2006ءمیں چین سے پانچ سو ملین ڈالر اس وعدے کے ساتھ حاصل کئے تھے کہ وہ یہ رقم اپنے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے سٹیٹ بینک میںرکھے گا اور خرچ نہیں کرے گا۔ اور جب زرمبادلہ کی صورتحال مضبوط ہوجائے گی تو یہ پانچ سو ملین ڈالر واپس کردیئے جائیں گے۔ افسوس کہ شوکت عزیز صاحب کی معاشی ٹیم نے اپنے وعدے کا پاس نہ کیا اور خزانہ بھرجانے کے باوجود چین کو پانچ سو ملین ڈالر حسب وعدہ واپس نہیں کئے گئے بلکہ خرچ کر ڈالے گئے چین اس عہد شکنی پر پاکستان کی حکومت سے نالاں رہا ہے ۔ جب آصف علی زرداری چین کے دورے پر گئے اور اپنے مالی بحران کی بات کی تو چینیوںنے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی تسلی دی کہ ہم پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ چین نے پاکستان کے اندر تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صرف یہی نہیں مزید پانچ سو ملین ڈالرز دینے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
ہم نے سعودی عرب کے حوالے سے بہت شور مچایا اور ایسا تاثر پیدا کیا کہ سعودی حکومت کو پاکستان کے لئے ہر حال میں اپنے خزانوں کے منہ کھول دینے چاہیں لیکن گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کی معاشی ٹیم کی کوئی شکل ہی نہیں تھی مسلم لیگ (ن) کے وزیرخزانہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ گئے تھے اور پی پی پی کے وزیر خزانہ کو معاشی پیچیدگیوں کا کوئی ادراک ہی نہیں تھا۔ سعودی عرب سے کسی ٹھوس معاشی منصوبہ بندی کے بغیر محض ادھار تیل مانگتے چلے جانا یکطرفہ خواہش کے سوا کچھ نہیں تھا۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے گر کر زمین پرآلگی ہیں۔ سعودی حکومت خود بھی معاشی دباﺅ کا شکار ہے اور ن لیگ اور پی پی پی کی آپس میں نااتفاقی نے بھی ہمارے دوستوں کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان جان کنی کے عالم میں سے گزر رہا ہے اور اب ہماری واحد امید یہ رہ گئی ہے کہ امریکی سینٹ میں پاکستانی امداد کا جو بل سینٹر اوبامہ نے پیش کیا تھا اس پر عملدرآمد ہوجائے اور پاکستان کو پندرہ بلین ڈالرز کی ”امداد“ مل جائے۔ خدا جانے اس ”امداد“ کے حصول کے لئے ہمیں قومی خودمختاری کی مزید کتنی قربانیاں ادا کرنا پڑیں گی؟
اصل سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے اہل ہیں؟ سب سے بڑی آزمائش اربوں روپے کے مزید ٹیکس لاگو کرنا اور غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کٹوتی کرنا ہے۔ اگر دفاعی اخراجات میں کمی نہ بھی کی جائے تو ضروری اضافے کو روکنا ہی بہت سے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس پر کٹھن مرحلہ موجودہ وزارتوں کے اخراجات کم کرنا ہوگا۔ ”فرینڈز“ اسی صورت میں یہاں سرمایہ کاری کے لئے حامی بھریں گے جب پاکستان کے اندر داخلی استحکام اور سکیورٹی کی صورتحال مثالی ہوگی۔ صورتحال یہ ہے کہ یہاں پہلے سے موجودہ بڑی بڑی یورپی کمپنیاں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس جارہی ہیں۔ صوبہ سرحد سے بھی بین الاقوامی امدادی ادارے اپنی سرگرمیاں بند کرچکے ہیں۔ یہ کہنا کہ ابوظہبی کے بعد اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں فرینڈز آف پاکستان اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبے شروع کردیں گے ابھی ایک خیال اور خواب ہے ۔ وہ سرمایہ کاری سے پہلے بہت سی شرائط عائد کریں گے۔ انہیں بلامشروط سرمایہ کاری پر کون قائل کرے گا۔ وہ اپنی حیثیت میں ”فرینڈز “ سے زیادہ ”ماسٹرز“ ثابت ہوں گے۔ اور ہماری داخلی صورتحال اس قدر گھمبیر ہے کہ ہم انہیں ماسٹرز بننے سے روک بھی نہیں سکتے۔