Nov
20
|
Click here to View Printed Statement
ابھی تک وہ اعدادوشمار سامنے نہیں آئے جن کی بنیاد پر معلوم ہوسکے کہ پاکستان نے آج تک جتنے ادارے اور صنعتیں پرائیویٹائز کئے ہیں ان سے کل کتنی رقم حاصل ہوئی ہے اور اس رقم سے کتنے غیر ملکی قرضے ادا ہوسکے ہیںلیکن سادہ اور عام فہم سی حقیقت یہ ہے کہ تمام ترنج کاریوں کے باوجود پاکستان کے بیرونی اور اندرونی قرضوں میںاضافہ ہی ہوا ہے
اور معاشی جان کنی کے عالم سے نکلنے کے لئے ایک بار پھر ہمیں آئی۔ایم ۔ایف کی دہلیز پر سر جھکانا پڑا ہے۔آپ کو پیسوں کی ضرورت ہو تو گھر کا سامان بیچ دیں۔ یہ ہے وہ معاشی تدبّر جس کے لئے ہماری حکومتیں بڑے بڑے معاشی ماہرین کی مہنگے داموں خدمات حاصل کرتی ہیں اور جب کسی ادارے کو ہم کوڑیوں کے مول فروخت کردیتے ہیں تو پھر کامیابی کے جشن مناتے ہیں۔
حکومت چاہتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بجائے ذمہ داریوں سے چھٹکارا پائے۔ گڈگورننس کا یہ فارمولہ بڑا ہی انوکھا ہے۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں جہاں پر حکومت روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنے کے نعرے لگا کر وجود پاتی ہیں وہیں روزگار کے محفوظ ذرائع کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ”بہترین حکومت کم از حکومت ہے۔“ یہ فارمولا پاکستان جیسے مفلوک الحال ملکوں کے لئے بنا ہی نہیں۔ یہاں فری اکانومی جیسے سرمایہ دارانہ تصورات کے عمل دخل سے صرف اور صرف مہنگائی ‘بے روزگاری اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی ہے۔ نج کاری فری اکانومی کا لازمی جزو ہے جس سے قومی نوعیت کی انتہائی حساس پیچیدگیاں ہی پیدا نہیں ہوتیں بلکہ عوام کا حکومت پر سے اعتماد بھی ختم ہوجاتا ہے۔
گو کہ سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد وقتی طور پر اندھا دھند نج کاری کے کلچر کو کافی دھچکا لگا تھا۔ لیکن نئی حکومت پھر سے اسی کلچر کے فروغ میں مصروف ہوگئی ہے۔ حالانکہ آج جوگروہ اور پارٹیاں حکمران اتحاد میں شامل ہیں‘وہ اسٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف سراپا احتجاج تھیں لیکن آج قادر پور گیس فیلڈ جیسے منافع بخش اداروں کو اونے پونے فروخت کرنے کی جلدی دکھائی دے رہی ہے۔ عوامی حلقوں اور رائے عام کے اداروں نے اس جلد بازی کا بروقت نوٹس لیا ہے اور وقتی طورپر وزیراعظم نے قادر پور گیس فیلڈ کا معاملہ رکوا دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس گیس فیلڈ کو فروخت کرنے کے تمام معاملات طے پاچکے ہیں۔پارلیمنٹ کی مصنوعی رکاوٹ کو ہٹانا صدارتی نظام میں زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
پاکستان اسٹیلز ملز کا معاملہ بھی لوگوں کی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ آخرکیا سبب ہے کہ چھ ماہ قبل تک جو اسٹیلز ملز چھ ارب روپے کاسالانہ منافع پر دے رہی تھی وہ اچانک سات ارب روپے کا خسارہ دکھا رہی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرضہ لینا پڑا ہے؟ اس معاملے کی کھوج لگائی جانی چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ منافع بخش اداروںکو بیچنے پر تنقید سے بچنے کے لئے اسٹیل ملز جیسے اداروںکو سفید ہاتھی ثابت کرنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہو۔ ممکن ہے کہ آئندہ دو چار ماہ تک ایسے اعدادوشمار سامنے لائے جائیں جن سے ثابت ہو کہ قادر پور گیس فیلڈر بھی خسارے میں جارہی ہے۔ اس لئے خسارے والے یونٹوں سے چھٹکارا پانا ضروری قرار پائے۔
یہی پاکستان ہے جس میں بہت سے قومی ادارے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر بدترمالی حالات کے باوجود نہ صرف پاکستان کے قومی خزانے میں اربوں روپے کاسالانہ ٹیکس جمع کروا رہے ہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ فوجی فرٹیلائزر کی ایک روشن مثال ہمارے سامنے ہے۔ کم از کم پچاس ہزار گھروں کے چولہا جلانے کا سہرا ایف ایف سی کی مینجمنٹ کے سرسجتا ہے۔ ایف ایف سی کے سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) خالد کبریا کے مطابق سارک ممالک کی اکاﺅنٹس کمیٹی نے ایف ایف سی کو اکاﺅنٹس پریذنٹیشن پر بہترین ایوارڈ دیا ہے۔ایف ایف سی اوسطً پانچ ارب روپے سالانہ قومی خزانے میں ٹیکس کی مد میں جمع کراتی ہے۔اربوں روپے کے زرمبادلہ کی بچت علیحدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے درجنوں ایسے ادارے ہیں جن کو اگر اچھی مینجمنٹ میسر آجائے اور اہل اور فعال لوگ تعینات کردیئے جائیں تو انہیں منافع بخش بنا کر قومی ترقی کو ممکن بنایاجاسکتا ہے۔
یہ کیسا معاشی ویژن ہے کہ ہم اپنے قومی صنعتی اور کاروباری اداروں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ان کو ناکارہ اور غیر منافع بخش ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ کیا کچھ لوگوں یا وزارتوں کے کوئی ایسے ذاتی مفادات ہوتے ہیں کہ وہ ”غیر منافع بخش “ کا الزام لگا کر اداروں کو ”قتل“ کرتے جارہے ہیں ۔ یہ قومی نہیں ایک قبیع سوچ ہے۔ اسے قومی اثاثوں کی نجکاری کی بجائے کاروکاری ہی کہا جائے گا۔ آپ اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور کچھ سنوارنے کی بجائے کسی صنعت یا ادارے پر ”کاری“ کا الزام لگائیں اور اشتہارات دیکر اسے ”نج کاری“ کی موت مار دیں!۔