Dec
05
|
Click here to View Printed Statement
عورتوں کے حقوق کا مغربی تصور دراصل عورت کے مقام و مرتبہ کی توہین ہے۔ افسوس کہ پاکستان میںحقوقِ نسواں کی تنظیمیں اسی توہین آمیز تصور سے متاثر ہو کر اپنی سرگرمیوں کے لئے راستے تلاش کرتی ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں فیشن ایبل بیبیوں کی این جی اوز نے بھاری فنڈز حاصل کئے۔ زینت ونمائش کی حد تک عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بڑی بڑی کاروائیاں ہوئیں لیکن پاکستان کی عورت کے حقوق کا تحفظ ہوسکا نہ ہی عورت پر ظلم کا موجب بننے والے رویوں میں کوئی تبدیلی آسکی۔
آج جب کسی اخبار میں کسی کم سن بچی کوخاندانی جھگڑے نمٹانے کے چکر میں کسی عمر رسیدہ بوڑھے کے نکاح میں دینے کی خبر آتی ہے ‘کہیں عورتوں کو آگ لگانے‘قتل کردینے اور کاروکاری کے دل دہلا دینے ولے مناظر کی تصاویر شائع ہوتی ہیں یا کوئی سنگدل باپ اپنی بیٹی کا گلا گھونٹتا پایا جاتا ہے تو ہر صاحب دل ودماغ ایک بار بلبلا اٹھتا ہے۔ چولہا پھٹنے اور عورت کے جل مرنے کے واقعات میںہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ جس عورت کے حقوق کا واویلا کیا جاتا ہے وہ اسلام آباد‘لاہور یا کراچی کے پوش علاقوں میںپائی ہی نہیں جاتی۔ وہ تو پنجاب اور سندھ کے کھیت کھلیانوں میں مٹی کے ساتھ مٹی ہورہی ہے۔بلوچستان اور سرحد میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ فیکٹریوں میں مزدوری کرتی اور سڑکوں پر پتھر توڑتی عورتیں یا وہ بدنصیب عورتیں جن کو جسم فروشی پر مجبور کردیا جاتا ہے اور وہ عورتیں اور بیٹیاں جنہیں آزادی کی آڑ میں اشتہارات کی زینت بننے پر ورغلایا گیا ہے۔ ہزاروں ایسی عورتیں بھی ہیںجو حقوق کے مغربی تصور سے مغلوب ہو کر معمولی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاقیں لے کر گھر بیٹھ گئی ہیں اور وہ بھی عورتیںہیں جن کا دفتروں کے اندر ہر طرح کا استحصال جاری رہتا ہے۔ حقوق نسواں کے لئے جس قدر آوازیں اٹھ رہی ہیں معاملہ اسی قدر الجھتا جارہا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت جس میں طرز حکمرانی کی بنیاد بظاہر جمہوریت اور سیکولرازم ہے وہاں بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مارنے کی باقاعدہ ایک تحریک چل رہی ہے اور ایسے ایسے کلینکس اور ڈاکٹرز موجود ہیں جو سالانہ ہزاروں کے حساب سے پیدا ہوتے ہی بچیاں تیزاب بھرے ڈرموں میں ڈال دیتے ہیں خود یورپ اور امریکہ کے اندر تمام تر تعلیم کے باوجود ریپ اور قتل کی وارداتوں بے حساب ہوتی ہیں ۔ مغربی دانشور اب ”خاندان بحالی“ کی ایک تحریک شروع کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عورت کے تقدس کا تصور اجاگر کیا جائے کیونکہ عورت اور مرد کی برابری کے ظاہری تصور سے مرد نے عورت کو اپنا مدمقابل سمجھ لیا ہے اور اپنی جسمانی ساخت کے سبب برابری کا پلڑا ہمیشہ مرد کے حق میں جھک جاتا ہے۔ اسلام کا حوالہ آتے ہی جاہل لوگ سوال کرتے ہیں”کونسا اسلام؟“۔ ان کے لئے مختصر عرض ہے کہ بحث و تمحیص میں پڑے بغیر ”اسوہ رسول اللہ اور قرآن حکیم“ کے مطابق جو کچھ ہے وہی اسلام ہے ‘ باقی سب روایات اور تہمات ہیں۔ کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کو اب ایسے سوالات کرنا زیب نہیں دیتا۔ وہ کتاب اللہ کھولیں اور پڑھ لیں۔ کسی ”برانڈ“ کسی ”مولوی“ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ این۔ جی ۔ اوز کے لئے اس سے آسان راستہ ہی کوئی نہیں کہ وہ جاگیرداروں ‘ وڈیروں اور جاہل مردوں کو ”بیٹی“ بیوی‘ ماں ‘ کے بارے میں ”اسوہ رسول“ اور حضرت فاطمہ ؓ کی زندگی کے واقعات بتائیں۔ انہیں خوف خدا دلائیں تاکہ وہ ونی کی رسم‘ کاروباری جسے ظلم اور بہتان باندھنے جیسی روش سے باز آجائیں۔ اگر پیغمبر اسلام اپنی بیٹی کو جہیز میں مال ومتاع نہیں دیتے تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو سونے چاندی سے لاد کر غریب عورتوں کو احساس محرومی میں مبتلا کریں۔ اگر ریاست مدینہ کے سربراہ اپنی بیٹی کے آنے پر اپنی چادر اتار کر بچھا دیتے ہیں تو ہمیں بیٹیوں سے نفرت کرنے‘بوجھ سمجھنے کی شیطانی سوچ کو اپنے دماغ میں جگہ دینے کی خواہش کیوں ہے۔؟ دور جاہلیت میں جن عربوں نے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا تھا‘ اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اصحابہؓ اکرام اپنے اس غیر انسانی فعل پر پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتے تھے۔ ہم آج مسلمان ہو کر بیٹی‘ بہو اور بیوی کو کس طرح چولہوں کے ذریعے جلا دیتے ہیں ؟۔ کیا ہم نے روز قیامت اس قبیع عمل کا جواب نہیں دیتا۔بھارت کے ہندو معاشرے عورت کو ”دیوی“ کا درجہ دیتے ہیں پھر کیا ہوا کہ وہ رحم مادر کے ٹیسٹ کرواتے اور بیٹی ہونے کی صورت میں پیٹ کے اندر ہی اس ”دیوی“ کو ختم کروا دیتے ہیں۔اس معاشرے کو بھی اسلام کی تعلیمات سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام نے بزرگی‘ بڑائی‘ علم و حکمت‘ اقتدار و اختیار ہر لحاظ سے عورت کو مرد کے برابر قرار دیا بلکہ حد یہ کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اتنی عورتیں حکمران بنی ہیںکہ شائد کسی اور مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔یہ اسلام کے تصور حقوق نسواں کا ہی ایک اظہار ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد کو پہلی سرپرستی ‘کفالفت اور ہمدردی بھی عورت نے فراہم کی۔ اسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہؓ کا کردار ہمارے مردوں کے لئے بہت بڑی روشنی ہے۔ حقوق نسواں کی بات کریں ۔ اس کے لئے آواز اٹھائیں لیکن اپنی فکر میں اسلامی تعلیمات کو جاگزیں کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اگر عورت کو اسلام کا دیا ہوا حق وراثت مل جائے تو اس ملک کی ستر فیصد عورتیں مالی اعتبار سے بھی خودمختار ہوجائیں گی۔ عورت حق سے محرو م اسی لئے ہے کہ احترام سے محروم کردی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا۔ ہم اس پر رحم کیوں نہیں کھاتے۔ عورت اشتہار ہے نہ پراپرٹی۔ یہ ماں ہے‘ بیٹی ہے ‘ بہن ہے‘ بیوی ہے اور بہو ہے۔ عورت کے حوالے سے دور جاہلیت کی سفاکیت اور دور حاضر کی مغربی تماش بینی دونوں سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے!۔