Dec
16
|
Click here to View Printed Statement
معاشی مسابقت کے اس دور میں چین نے اقتصادی ترقی کو ہی اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز و محور بنا لیا ہے۔ ”ہم جنگ نہیں کرینگے“ چین کی قومی قیادت اس فلسفے پر پوری طرح یکسوئی سے عمل پیرا ہے اور دنیا بھر میں مارکیٹوں پر مارکیٹیں فتح کرتے معاشی خوشحالی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ یہ نہیں کہ چین اپنے دفاع سے غافل ہے۔ اسلحہ سازی کے اعتبار اور دفاعی تقاضوں کے لحاظ سے بھی چینی حکومت دنیا کی سپرطاقت کے ہم پلہ ہونے کے قریب ہے۔ آج امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک بھی چین کے مقروض ہوچکے ہیں اور دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے چین کی طرف بے چین نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں
چین کو اس کرہ ارض پر چلتا پھرتاہر انسانی ڈھانچہ اپنا ”کلائنٹ“ دکھائی پڑتا ہے۔ اہل چین کو کسی کے مذہب‘ رنگ‘ ملک اور زبان سے کوئی غرض نہیںوہ اپنی مصنوعات کو اس قدر گاہک دوست بنا چکاہے کہ ساڑھے چھ ارب انسانوں کے اس سنگسار میں شائد ہی کوئی انسانی گروہ ایسا بچا ہو جوکسی نہ کسی طور چین کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مددگار نہ بن رہا ہو۔ بچہ بوڑھا ‘نوجوان ‘عورت مرد اور ہیجڑا۔ صحت مند اور اپاہج ‘گورا اور کالا‘امریکی اورایرانی‘ مسلم غیر مسلم سب کے سب چینی مصنوعات خریدتے ہیں‘ استعمال کرتے ہیں اور مزید خریدنا چاہتے ہیں۔ چین کے نزدیک دنیا ایک منڈی ہے اور چین کو ہر وہ ملک پیارا اور قریبی ہے جہاں کی آبادی زیادہ ہو۔ آج کے جدید چین کے نزدیک بھارت ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اس لئے وہ بھارت کے ساتھ کسی سرحدی کشمکش میں الجھ کر اپنی یہ مارکیٹ کھونا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ دلائی لامہ والے معاملے کے باوجود چین بھارت کے زیر تسلط اپنے جغرافیائی حصے سے فی الوقت دستبردار ہوگیا ہےِ۔ اس نے ویت نام کی حکومت سے کامیاب مذاکرات کر لئے ہیں اور امریکہ کے نو منتخب صدر باراک حسین ابامہ کو دنیا میں امن اور خوشحالی لانے کے لئے دعوت بھی دے دی ہے۔
چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد بھی دراصل پاکستان کے اندر منافع بخش سرمایہ کاری ہی ہے۔ پاکستان کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال کے باوجود بھی چینی فرموں اور کمپنیوں نے یہاں پر اپنا بوریا بستر نہیں لپیٹا اور یورپی اور امریکی کمپنیوں کے برعکس سرمایہ کاری کے نیٹ ورک کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان بھی چین جیسے مفید ہمسایہ اور دوست ملک کے سرمائے کاروں کو ہر سہولت دینے پر کم بستہ ہوچکا ہے اورپاک چین اقتصادی فورم بنا کر چینی سرمایہ کاروں کے راستے میں حائل بیورو کریٹک اور سکیورٹی رکاوٹوں کو دور کررہا ہے۔ پاک چین دوستی دونوں ملکوں کی معاشی ترقی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوچکی ہے۔
چینی حکومت پاکستان کے حکمرانوں کو یہی بات سمجھانے میں مصروف ہے کہ وہ بھارت کیساتھ کشیدگی کم کرنے کے عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔ افسوس کے ممبئی واقعات کے بعد بھارت کے ذمہ داروں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی ٹھوس پیش رفت نہ کرنے کے سبب تجارتی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھنا مشکل ہوگیاہے۔ چین کو پاکستان کی حساس صورتحال کا ادراک ضرور ہے لیکن وہ پاکستان کے سولہ کروڑ لوگوں کی خاطر بھارت کے ڈیڑھ ارب گاہکوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔
بھارت نے سلامتی کونسل میں جماعت الدعوة کے خلاف درخواست دائر کی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے بیک جنبش قلم اس گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا۔ پاکستانی شائد جیسے اس فیصلے کی شدت سے منتظر تھی۔ ادھر سلامتی کونسل کا فیصلہ آیا اور اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن پورا ہونے سے بہت پہلے ہی حکومت نے جماعت الدعوة کے ہسپتال‘سکولز ‘مساجد اور دفاتر پر تالے ڈال کر تھوک کے حساب سے گرفتاریاں کر ڈالیں۔ فیصلے کی تفصیلات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ‘روس‘امریکہ اور فرانس کے علاوہ چین نے بھی اس بار سلامتی کونسل کے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا۔ بعض سرکاری حلقوں کی طرف سے چین کے رویے کو حکومت کی مجبوری کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس بار چین نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ ایک خطرناک اور بے بنیاد سوچ ہے جسے سرکاری عہدیداران وقتی سیاسی فائدے کے لئے پھیلا رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ چین کو بھارت کی منڈی سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے اور وہ پاکستان کے کسی مسئلے کی خاطر بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا لیکن سلامتی کونسل کے حوالے سے حقائق مختلف ہیں۔جنرل (ر) حمید گل صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے جماعت الدعوة کے خلاف آنے والی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بارے میں چین سے کہا ہی نہیں گیا۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر چین کے خلاف بداعتمادی نہیں پھیلانا چاہیے۔ پاک چین تعلقات میں اعتماد برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ بدلتی عالمی صورتحال میں کہیں ہم اپنے آزمودہ دوست کو ناراض نہ کر بیٹھیں!