Jan
01
|
Click here to View Printed Statement
سیاسی اور عسکری قیادتوں کے اتحاد اور باہمی ربط سے ایک بار پھر یہ طے ہوا کہ پاکستانی قوم کے اندر وہ بنیادی انسانی جوہر بدرجہ اتم موجود ہے جس کے استعمال سے ہم بپھرے ہوئے دشمن کو جارحیت سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اندرون خانہ جس برق رفتاری اور ہوشمندی کےساتھ پریذیڈنٹ ہاﺅس‘ وزیراعظم ہاﺅس‘پارلیمنٹ‘قومی وسیاسی جماعتوں اور جی ایچ کیو نے آپس میں ملکر جس طرح بھارت کی طرف سے پیدا کی گئی آتشیں صورتحال کو ٹھنڈا کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملت پاکستان بڑے سے بڑے بحران کا اپنی اجتماعی ذہانت کیساتھ حل نکال سکتی ہے۔
ہمارے قومی رویے میں کمی صرف یہ ہے کہ ہم فوری خطرات کےخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار تو بن جاتے ہیں لیکن جونہی خطرہ ٹل جاتا ہے ہمارے اعصاب بھی ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور ہم پھر حالتِ سکون میں آجاتے ہیں۔
بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کا آپشن شائد مﺅخر کردیا ہو لیکن اکنامک سٹرائیک یعنی اقتصادی حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں شدت لانے کے پروگرام بھی بنائے جارہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے دنیا بھر سے سفیروں کو بلا کر جو ایجنڈا دیا ہے اس میں سب سے زیادہ زور پاکستان کو دہشتگردوں کی جنت اور کسی قسم کی سرمایہ کاری کے لئے غیر مناسب ملک ثابت کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ بھارت کی طرف اس مہم کے تین خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکی انتظامیہ میں اثرونفوذ کے ذریعے پاکستان کو فاٹا کے علاقوں میں قائم کئے جانے والے انڈسٹریل زونز کے لئے ملنے والی متوقع امداد رکوا دی جائے۔ دوسرا نتیجہ ”فرینڈز آف پاکستان“ کے فورم کی تحلیل کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ گو کہ اس فورم کے ذریعے ابھی تک پاکستان کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا لیکن اس کے نفسیاتی اور سفارتی اثرات پاکستان کے حق میں بہتری لارہے تھے۔ اس فورم کی تحلیل سے پاکستان اقتصادی طور پر تنہا ہوسکتا ہے۔ بھارتی لابی پاکستان کے لئے تیسرا خطرناک نتیجہ ایران کے حوالے سے پیدا کرسکتی ہے ۔ اگر ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کا معاہدہ طے پاجاتا ہے تو ظاہر ہے پاکستان کو فوری طور پر درپیش انرجی کا بحران ٹل جائے گا۔لیکن اگر بھارت مختلف حیلوں‘ بہانوں سے ایران کو کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے روک دیتا ہے تو پھر آئندہ پانچ دس برس کے اندر توانائی کا شدید ترین بحران پیدا ہوجائے گا اور صنعت کا جو تھوڑا بہت پہیہ چل رہا ہے وہ بھی رک جائے گا۔ اس طرح کے اقتصادی جارحیت کے کئی مظاہرے سامنے آسکتے ہیں۔پاکستانی سرحدوں پر عسکری دباﺅ کے ذریعے پاکستانی سرمایہ کاروں میں بھی ذہنی کشمکش کا رجحان جاری رہے گا اور سرمایہ اور ذہن بیرون ممالک منتقل ہوتا رہے گا۔
پاکستانی حکومت اور عوام نے جس طرح بھارت کی طرف سے عسکری جارحیت کے جنون کو بے اثر کیا ہے اسی جنگی جذبے کے تحت اقتصادی جارحیت کو بھی ٹالنا ہوگا۔” پاکستان اکانومی واچ“گاہے بگاہے متعلقہ حکومتی اداروں کو آگاہ کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا رہتا ہے۔ اب بھی چند گزارشات اہل اختیار تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوںِ۔ سب سے پہلا کام ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ چینی کمپنیوں اور اداروں کے راستے میں حائل تمام قسم کی افسرانہ رکاوٹیں ختم کردینی چاہیں۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملکر پاکستان کے اندر مشترکہ کارروائی کو فروغ دیں۔ اس سے ہمارے ہاں جدید ترین ٹیکنالوجی اور تجربہ دونوں چیزیں منتقل ہوں گی۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ پاکستان کو بیرون ممالک اپنے سفارتکاروں کو خصوصی مہم سونپنی چاہیے جس کے ذریعے وہ اپنے میزبان ملکوں کے سرمایہ کار حلقوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کریں۔ جو سفارتخانہ اس سلسلے میں بہتر نتائج دے اس سفیر اور عملے کے لئے ایوارڈز کااعلان کردیا جائے اور جو نتائج نہ دے سکے اسے تبدیل کردیا جائے۔ اور میرٹ پر نئے سفیر بجھوائے جائیں۔ بھارت کے اندر بھی اپنی لابی کو مضبوط کیا جائے۔ اس وقت بھارت کے سرمایہ کار پاکستان کی طرف بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں یہ ہمارے اوپر انحصار ہے کہ ہم کس سے کیسا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عرب ممالک نے اسرائیل کے جارحانہ رویے سے تنگ آکر اپنے تعلقات کا از سر نو کو جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھ کر عرب ملکوں میں پھر سے اپنی لابی کو تیز کرنا چاہیے۔ بھارت اسرائیل تعلقات کے نقصانات بیان کرنے چاہیں اور فلسطین کاز کے لئے پاکستان کی خدمات کے ذکر کو دہرانا چاہیے۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ ہمارے لئے دوسری ”شہ رگ“ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں ایران کو اس منصوبے پر آمادہ کرنے کے لئے سفارتی مشن ترتیب دینے چاہیں۔ فاٹا کے علاقوں سے فوجوں کی واپسی کا اس سے بہتر موقع کوئی نہیں ہوسکتا۔ اگر سوچ سمجھ کر یہ اقدام اٹھایا جائے اور قبائلیوں سے گارنٹی لی جائے کہ وہ پاکستانی سرزمین سے کسی ملک کے اندر کوئی کارروائی نہیں کریں گے تو اس اقدام سے نئے امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے اندر امن وامان کی صورتحال بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ امریکہ سے آنے والی تیس ہزار فوجیوں کی نئی کمک کو افغان بارڈر پر تعیناتی سے باز رکھنا بہت بڑا امتحان ہوگا۔ کوئی حرج نہیں اگر افغان صدر کوبھی اس معاملے پر اعتماد میں لینے کی کوششیںجاری رکھی جائیں۔ کیونکہ اگرخدانخواستہ امریکہ کی ساٹھ ہزار فوج ہمارے مغربی بارڈر پر تعینات ہوگئی تو پھر ہمارے قبائلی علاقوں میں نئے طرح کے فسادات شروع ہوجائیں گے اور اقتصادی جارحیت کا مقابلہ مزید مشکل ہوجائے گا۔