Apr
20
|
Click here to View Printed Statement
یہ تصور بھی مشکل تھاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت مغرب خصوصاً امریکہ کی طرف سے واضح ”احکامات“ سے ”انحراف“ کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی آواز پر لبیک کہے گی اور مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت یا عدل ریگولیشن کو قومی اسمبلی سے متفقہ طورپر پاس کروانے کا کارنامہ سرانجام دے گی !۔
صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کے بارے میں ایک مخصوص گروہ کی طرف سے نفرت بھری ایس۔ ایم۔ ایس مہم جاری رہتی ہے اور ہمارے موبائل فونز پر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے ”نازل“ ہو رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے اندر پاکستان کے اندر بہت سے بنیادی فیصلے ہوئے ہیں اور ان تمام قومی نوعیت کے انقلابی اقدامات کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طورپر جناب زرداری کی مدد اور حمایت حاصل رہی ہے۔ آصف علی زرداری کی شخصیت کا ایک حسین پہلو یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت ترین جملے سن کر بھی مسکراتے ہیں اور اگر بات محض تنقید برائے تنقید تک محدود نہ ہو تو اپنی اصلاح بھی کر لیتے ہیں۔ ججوںکی رہائی کا معاملہ ہو‘ ڈاکٹر قدیر خان کی ”آزادی“ کا مرحلہ ہو۔ لانگ مارچ اور اس کے نتیجے میں ججوں کی بحالی کا کٹھن اور ناپسندیدہ مقام ہو یا پارلیمنٹ کی مضبوطی اور صدارتی اختیارات کی کمی جیسے سیاسی ایشوز ہوں ۔ زرداری ہر بار تمام تر افواہوں‘ اندازوں اور تجزیوں کے برعکس حیران کردینے والے اقدامات اٹھا لیتے ہیں اور پھر بڑی عاجزی کے ساتھ ان اقدامات کاکریڈٹ بھی اپنے ”دوستوں“ کو دے دیتے ہیں۔
آج لال مسجد کا معاملہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل ہوگیا ہے۔ یہ معرکہ بھی موجود صدر زرداری کے دور کا معرکہ ہے کہ برطانوی سفیر کو دفترخارجہ طلب ہی نہیں کیا بلکہ ”اصلی “ والا احتجاج بھی کیا جاتا ہے ۔ صرف چھپ چھپا کے احتجاج نہیں ہورہا بلکہ اخبارات میں سرعام مذمتی بیانات چھپ رہے ہیں ۔ جمہوریت اور جناب زرداری کے جمہوری رویے نے ہی پارلیمنٹ کو بالا دست ادارہ بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔ آج اگر امریکی سینیٹر جان کیری ہمارے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اکڑی ہوئی گردن کی بجائے دھمیے لہجے میں پاکستان کو منانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں واشنگٹن کی بجائے آپس میںایک دوسرے کے فون سننے کی رسم نے جگہ پکڑلی ہے۔آج وردی اورشیروانی ایک دوسرے کو گھورتی نہیں ایک دوسرے سے ملاپ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی قائدین ہوں یا عسکری قیادت سب کو علم ہے کہ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور مسلمان جب حالتِ جنگ میں ہوں تو باہم شیروشکر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں آج ایک بار پھر ملی اتحاد اپنا راستہ بنا رہا ہے۔
یہ کریڈٹ بھی پی پی پی کی حکومتوں کوجاتا ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا‘ انہی کے دور میں شراب پر پابندی عائد کی گئی اور اسلامی شعائر کی ترویج کے طور پر بھٹو کے دورمیں ہی جمعہ کی چھٹی کی گئی۔اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہوا اور دنیا مسلم امہ کے تصور سے آشنا ہوئی۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہی دور تھا جب صوبہ سرحد کی کابینہ نے مالاکنڈ ڈویژن کے اندر شرعی نظام کے نفاذ کے حق میں متفقہ قرارداد پاس کی تھی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہی اہم ترین اسلامی شعائر چادر کو فروغ دیا۔ افسوس کہ غیر ملکیوں کوخوش کرنے کے لئے اپنے لوگوں کے ٹھیک اسلامی اور اخلاقی مطالبات کو ”دہشتگردی“ اور ”انتہاپسندی“ قرار دے کر بار بار رد کیا گیا۔
کبھی جماعت اسلامی کے متحرک کارکن رہنے والے مولانا صوفی محمد نے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہی 1992ءمیں تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی۔ 2001ءمیں جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کردی تو جناب صوفی محمد اپنے ہی ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شمالی اتحاد کےخلاف برسرپیکار تھے ۔ افسوس کہ صدر مشرف نے بہت سے کارکنوں کو بھون ڈالا اور صوفی محمد کو جیل میںڈال دیا گیا۔ سات برس تک جیل کاٹنے کے بعد انہیں امریکی ردعمل کے طور پر ابھرنے والی طاقت” طالبان“ سے مذاکرات کرنے کی خاطر رہا کیا گیا۔ صوفی محمداور سوات کے طالبان نے کبھی پاکستان کے وجود کے خلاف بات کی نہ کبھی پاکستانی جھنڈے کوجلایا۔ ”پاکستان اسلام کے نام پر بنا‘ اس میں اسلامی نظام کے نفاذ تک جدوجہد کریں گے “ یہ تھا مختصر سا مطالبہ جو آئین پاکستان کے تکمیلی تقاضوں کے مطابق تھا۔طیاروں نے موت برسائی تو پھر گولیاں چلنا بھی فطری عمل تھا۔ ہر پاکستانی فکر مند تھا کہ سوات کب تک جلتارہے گا۔
یہ نصیب اور مقدر کی بات ہے جو عزت جناب زرداری کے حصے میںلکھی تھی اسے کون روک سکتا تھا۔ کمال حکمت اور مومنانہ فراست کے ساتھ جناب زرداری نے بلند و بانگ دعوے کرنے کی بجائے سوات معاہدے کو پارلیمنٹ کے ذریعے تحفظ دلوایا اور مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت نافذ ہوگئی۔ اب طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق اس ریگولیشن کے نفاذ میں مدد کریں۔ جس زرداری پر مغرب اور امریکہ کی غلامی کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ اس نے مکےّ اور مدینے والا آدمی ہونے کا ثبوت دیا‘ گویا کہ
پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے