Apr
21
|
یہ سچ ہے کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں ججوںکی بحالی کے بعد ہماری قومی سیاست میں استحکام کا تاثر ابھرا ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی آپس میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کر لینے اور آپس کی چپقلشوں کو بات چیت اور چارٹر آف ڈیموکریسی کی بنیاد پر آگے بڑھانے پر متفق ہوجانے کے بعد قومی اہداف کیا ہیںِ۔ کیا یہ ساری جدوجہد محض پرامن طریقے سے انتخاب کراتے چلے جانے اور باری باری اقتدار سنبھالنے تک ہی محدود ہے یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے عظیم تر مقاصد کے حصول کی جانب بھی کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کی خواہش کار فرما ہے؟
میاں نوازشریف صاحب اور جناب آصف علی زرداری سمیت ہر سیاسی رہنما اس بات پر تو متفق دکھائی دیتا ہے کہ ملک اندرونی اور بیرونی طور پر انتہائی دگرگوں حالات کا شکار ہے‘ یہ اس ملک کی وہ ظاہری صورتحال ہے جسے بیان کرنے کے لئے کسی بہت بڑی دانشوری کی ضرورت نہیں ۔ معاملہ وہاں پیچیدہ ہوجاتا ہے جہاں ان بگڑتے حالات کے اسباب کے تعین کا سوال آکھڑا ہوتا ہے۔پاکستان کو دہشتگردی‘ انتہا پسندی اور خون خرابے سے کس اَمر نے دوچار کر رکھا ہے؟اقتصادی بدحالی کا موجب کون کون سے عوامل ہیں؟ اور فاٹا اور بلوچستان کے اندر آگ اور خون کا کھیل کن لوگوں نے کھیلا‘ عمل کیا تھا اس کا ردعمل کیا ہے؟افغانستان آج ہمارا دشمن کیوں ہے‘ہم کشمیر آج تک حاصل کیوںنہ کرسکے؟۔بجلی ‘گیس اور پانی کے بحران کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ ایک عام پاکستانی غربت کی چکی میں کیوں پستا چلا جارہا ہے؟ ہمارے گرین پاسپورٹ کو کھٹمنڈو جیسے ایئرپورٹ پر بھی ”دہشت“ کی علامت کیوں سمجھتا جاتاہے؟
ہزاروں چیختے چلاتے سوالات ہیںجو سولہ کروڑ پاکستانیوں کو الجھائے رکھتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پے در پے مایوسیوں کے سبب ہمارے ملک کے حساس لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔
انہی سوالات کو دہرانے اور ان کا جواب تلاش کرنے اعلیٰ عسکری اور حکومتی عہدوں پر فائز رہنے والے فکر مند احباب انکل نسیم انور بیگ کی رہائش گاہ کا رخ کرتے ہیں۔ چند روز قبل آنٹی اختر مرحومہ کی اس میز پر پاک فضائیہ کے سابق افسران کا ایک وفد چند روز قبل قومی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے محوفکر تھا۔ ہرطرف اور ہر سطح کی آراءسننے کے بعد محترم نسیم انور بیگ نے بڑے اختصار اور خوبصورتی سے ہمارے مرض کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا‘
”کشتی ہے‘ ملاح ہے‘ سمندر ہے۔سب ہے۔صرف ر±خ نہیں ہے اور جب تک ر±خ کا تعین نہ ہو سفر طے نہیں ہوتے صرف سفر کی تھکاوٹ ملتی ہے“۔
میں سمجھتا ہوںکہ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر ہمارے سیاسی رہنماﺅں کو اپنے اتحاد یا اخلاق کی بنیادیں استوار کرنی چاہیں۔ ہمیں اپنی قومی منزل کا بھی پھر سے تعین کرنا چاہیے۔ اس کے لئے تمام مکاتب فکر‘ تمام سیاسی رہبروں اور فکری دانشوروں کوکسی ایک منزل کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
آج حالات اور واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ گزشتہ ساٹھ برس کا سفر رائیگاں تھا۔ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنا‘ اسلام کے نام اور نعرے پر اس تحریک میںمسلمانان ہند شامل ہوئے۔ قائداعظم ؒ نے قرآن و سنت کے مطابق معاشرے کے ہر شعبے کو استوار کرنے کا خواب دیکھا اور دکھایا‘ قراردادِ مقاصد آئین کا حصہ بنی ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود ہی اس لئے تھا کہ ملک کے تمام تر قوانین کو اسلام کے ماتحت کیا جائے۔ افسوس کہ امریکہ اور مغرب کے دباﺅ اور دھمکیوں کے سبب ہر دس سال بعد ہم اسلامی نظام اور فلاحی مملکت کی منزل سے ہٹا دیئے گئے۔ قیام پاکستان کے مقاصد کو ہر گروہ نے اپنی تعبیر دی اور آج ہم کہیں پاکستان کی بنیادیں محض معاشی ضرورتوں میں تلاش کر کرتے ہیں‘ کبھی صوبائی حقوق کے نام پر ریاست کے اندر ریاست بناتے ہیں اور کہیں اسلام کے نام پر اپنا اور اپنوں کا خون بہاتے ہیں۔ آج کا اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے فیصلے کرنے میں واقعی آزاد ہیں؟ جب تک ہمارے سیاسی اکابرین اپنے دلوں کو ٹٹول کر واقعتا آزاد نہیں ہوجاتے‘اس ملک کو منزل ملے گی نہ ہماری قومی کشتی کا رخ متعین ہوسکے گا!۔