Oct
16
|
Click here to View Printed Statment
فوجی وردیوں میں ملبوس‘فوجی نمبر پلیٹ والی سوزوکی وین میں سوار ہو کر جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دھوکہ باز دہشتگرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے یا بری طرح ناکام رہے‘ اس بحث کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن دس اکتوبر کا دن ہماری قومی زندگی میں قیمتی اثاثے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ہر دس اکتوبر ہمیں یاد دلائے گا کہ ہمارے کمانڈوز بہادری اور جانفشانی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ جونہی وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حرکت کریں گے گولیوں سے بھون ڈالے جائیں گے۔ موت سامنے دیکھتے ہوئے بھی چار کمانڈوز آگے بڑھتے ہیں‘کمانڈر کے سامنے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں اور دہشتگردوں کی توجہ تقسیم کرنے کے لئے سیکورٹی روم کے سامنے آجاتے ہیں۔
شہادت‘ عظیم شہادت! دشمن گولیاں چلاتے رہتے ہیں‘ اسی فائرنگ کے دوران باقی جانباز یرغمالیوں کو رہا کرا لیتے ہیں۔یہ افسانہ نہیں‘اپنی معتبر معلومات کی بنیاد پر حقیقت لکھ رہا ہوں۔ افواج پاکستان کے ماتھے کے ان جھومروں نے یرغمالیوں کی جان بچانے کےلئے موت کے سامنے کھڑے ہو کر موت کو للکارا تھا۔ جراتوں کی ایسی داستانیں صرف پاکستانی قوم کے دامن میں ہی سمو سکتی ہیں۔ ایسے بہادر ہی نشانِ حیدر کے مستحق ہوتے ہیں۔ملکہ ترنم نور جہاں نے سچ ہی گایا تھا“ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے“۔
دس اکتوبر ہمیں یاد دلاتا رہے گاکہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے شائد پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر مجروح کرنا چاہتے تھے‘لیکن ایسا ہونے کی بجائے اس حملے کا ردِعمل بالکل مختلف تھا۔کراچی سے خیبر تک ہر سیاسی پارٹی اور رہنماءنے افواج پاکستان کے بہادروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ فوج سے اپنی محبت کا اعادہ کیا۔سچ یہ ہے کہ دس اکتوبر کے حملے نے پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا ہے۔آج کی پاکستانی قوم سیاسی جرنیلوں کے سبب فوج کے بارے میں پائے جانے والے سارے شکوے اور گلے بھول کر اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لئے اپنی غیر مشروط محبتیں نچھاور کر رہی ہے۔
ہمارے عظیم سپہ سالار اس وقت اپنے دفتر میں موجود تھے جب ملک دشمنوں نے سپاہیوں کا بھیس بدل کر ہلہ بولا۔ سلام ہے ان سپہ سالاروں پر جو کسی ”محفوظ“ مقام پر منتقل نہیںہوئے بلکہ طالبان نما بہروپیوں کی ٹھکائی کا خود جائزہ لیتے رہے اور جب تک آپریشن مکمل نہیں ہوا آرام نہیں کیا۔
جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 1پر شہداءکی تصویریں ہیں‘تصویروں کے اوپر زرق برق ہار ہیں‘تصویروں کے سامنے پھول ہی پھول ہیں۔ معصوم بچوں کی طرف سے رکھے گئے پھول‘کالج اورسکولوں کے طلبہ و طالبات کی طرف سے نچھاور کئے گئے پھول ‘شہریوں کی طرف سے بچھائے گئے پھولوں کے تختے۔خوشبو‘شہیدوں کے خون کی مہک۔قرآن کی تلاوت ۔پاکباز خواتین کے اٹھے ہاتھ ۔دعائیں ‘ماﺅں کی دعائیں‘ بہنوں کی دعائیں۔ کون ہے جو اس عظیم پاکستانی قوم کو خوفزدہ کرسکتا ہے۔ہر دکھ سہ جانے والی قوم‘نئے راستے تلاش کر لینے والے لوگ۔کوئی غمزدہ ہو کر گھر نہیں بیٹھ گیا‘کوئی قافلہ رکا نہیں۔ پاکستانیوں نے پاکستان کو بنانے اور بچانے کا فن سیکھ لیا ہے۔فوج اور عوام ایک ہیں۔دشمنو‘ اپنی خیرمناﺅ!
آئی۔ایس۔پی۔آر کے سربراہ میجر جنرل اطہرعباس نے مضبوط اعصاب کا ثبوت دیا۔گھبرائے نہیں‘ بوکھلائے نہیں۔ حسب توقع تمام سوالوں کے شافی جوابات دیتے رہے اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ دارانہ کردار کی تعریف کی۔
کچھ کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں۔ ہر گروہ اور پیشے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خبر بنانے کے لئے بہت سے بگاڑ پیدا کردیتے ہیں۔بہت بڑے صحافتی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے شَر اچھالا ہے۔ صدر زرداری کیخلاف اپنے گروپ کی طرف سے جاری مہم کو گرمانے کے لئے دس اکتوبر کے حملے کو متنازعہ بنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔اس صحافی کی ضد ہے کہ صدر اور وزیراعظم کوجی ایچ کیو پر حملے کے حوالے سے اسی طرح کی ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دینا چاہیے تھا جس طرح جونیجو مرحوم نے اوجڑی کیمپ کے حادثے کی انکوائری کرانے کا اعلان کیا تھا۔حیرت ہے کہ بڑے اخبار نے اس خبرنما شرارت کو صفحہ اول پر جگہ دی ہے۔ ایک عام پاکستانی بھی یہ حقیقت جانتا ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا ہے‘ یہاں کسی اسلحہ ڈپو میں آگ نہیں لگی۔ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ رپورٹر کو حملے اور حادثے کا فرق ہی معلوم نہیں۔ ایسے جاہل رپورٹر کو رپورٹنگ کے بجائے سنگھاڑے بیچنے چاہیں۔قومی شہداءکے خون کی لالی کو مشکوک بنانے کا جرم کرنے والے ذمہ دارانہ صحافت کےخلاف دہشتگردی کر رہے ہیں۔