Oct
26
|
Click here to View Printed Statment
عین اس وقت جب ہماری بہادر مسلح افواج دہشتگردوں کے قلب پروار کر رہی ہیں۔ بعض نادان دوست ہماری قومی یکجہتی پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن ”راہ نجات“ کوئی آسان معرکہ نہیں ہے۔ پختہ یقین ہے کہ ہمارے جانثار بھائی اور بیٹے کامیاب ہوں گے اور محسود اور دیگر غیرت مند قبائل کو چار فیصد دہشتگردوں کی دستبرد سے نجات دلا کر رہیں گے۔ لیکن میدان کا رزار میں جیتی ہوئی جنگوں کو سیاسی طور پر جیتنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔خطرہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی گروہ بندیاں ہماری عسکری کامیابیوں کو شکست میں تبدیل نہ کردیں۔ دہشتگردوں کو ”مظلوم“ قرار دینے والے حلقے ”اسلام دوستی“ کا اسیر ہو کر کہیں تدبیر اور تعبیر کی پھرسے غلطی نہ کر بیٹھیں۔
ایک تیکھا سوال پاکستانی ذہنوں میں ہر لمحہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جس جنگ میں الجھ گیا ہے یہ ہماری جنگ ہے یا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ ؟ چونکہ سیاسی طور پر اس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب آج تک دیا نہیں جاسکا اس لئے بعض سیاسی مذہبی گروہ سینہ گزٹ کے ذریعے افواج پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہماری فوج ڈالر لے کر امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے اوردہشتگرد” پکے اور سچے مسلمان“ ہیں جو دراصل امریکہ کیخلاف سینہ تانے کھڑے ہوگئے ہیں۔ جوسیاسی ومذ ہبی گروہ افواج پاکستان کے خلاف کھل کر بات نہیں کرسکتے انہوںنے ایک نئی وجہ گھڑلی ہے ۔چونکہ مشرف دور میں پاکستا ن نے افغانستان پر امریکی یلغار کا ساتھ دیا اور فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا جرم کیا ہے اس لئے آج پاکستان کے اندر جتنی دہشتگردی ہورہی ہے یہ دراصل ایک ردعمل ہے اور جب تک پاکستان امریکہ سے الگ نہیں ہوتا تب تک یہ دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔
جب طالبان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا تو جماعت اسلامی کے سابق امیر محترم قاضی حسین احمد نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس میں فرما یا تھا‘
”طالبان کا اندازِ حکمرانی قطعاً اسلامی نہیں ہے۔ ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کوئی بات سنتے ہی نہیں“۔
راقم اس پریس کانفرنس میںموجود تھا اور اپنے میگزین کے لئے نوٹس لے رہا تھا۔ بعد میں بھی کتنے ہی ایسے مواقع آئے جب محترم قاضی حسین احمد نے طالبانی سوچ سے اختلاف کیا اور اس سوچ کو افغانیوں کی روایات قرار دیا۔
اگر ہم اپنے ذہن پر تھوڑا سا زور دیں تو ان دنوں ہمارا ہمسایہ ملک ایران طالبان کی شیعہ دشمنی کے سبب پاکستان سے باقاعدہ روٹھ چکا تھا۔ یہ وہی ماہ و سال تھے جب ایران کے سرحدی صوبے میں سڑکوں پر پاکستانی پرچم کی شبیہ بنا کر ایرانی نوجوان مارچ کرتے اور ”مرگ برپاکستان‘مرگ برطالبان“ کے نعرے لگاتے تھے۔
یہ وہی دن تھے جن دنوں مال روڈ لاہور پر ایک مذہبی گروہ کے نوجوانوں نے ”پاکستانی طالبان“ کے بینرز اٹھا کر مظاہرے بھی کئے تھے اور عام فضا یہی تھی کہ افغانستان کے بعد اب پاکستان میںبھی ملاں محمد عمر کی امارت قائم ہونے جارہی ہے۔
میرا موقف یہ ہے کہ اگر نائن الیون کا واقعہ نہ بھی ہوتا اور امریکہ افغانستان پر یلغار نہ بھی کرتا اور پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ نہ بھی بنتا تو بھی طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور حکومت پاکستان پر قابض ہوجانے کی خواہش کو روکنے کے لئے پاکستانی ریاست کا ان خارجی قوتوں سے ٹکراﺅ ہونا ہی تھا اور یہ حقیقت سوات کے حالات نے پوری طرح ثابت بھی کردی۔ سوات میں طالبان کے اسلام کو نہ صرف اہل سوات نے بھگتا بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کے جابرانہ خیالات اورگلے کاٹنے کے کلچر سے متعارف ہوئے۔ بھلا ہو جناب صوفی محمد کا کہ انہوں نے اپنے لائیو خطاب میں معصوم پاکستانیوں کوطالبان کی اصل سو چ سے آگاہ کردیا اور یوں سوات آپریشن پر پاکستانیوںکی اکثریت یکسو ہوگئی۔
حیرت ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کے بعض آکابرین آج بھی دہشتگردوںکو شک کا فائدہ دینے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپریشن کی بجائے ”مذاکرات“ پر زور دے رہے ہیں۔ یا تو ان لوگوں کی آنکھیں پوری طرح کھلی نہیں ہیں یا پھر یہ احباب آئندہ انتخابات میں مذہبی جذبات کے بل بوتے پر اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی آپریشنز کے لئے ان کی نیم دلانہ رضامندی ہماری قومی یکجہتی کی پیٹھ میںچھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ امریکہ کی مخالفت ضرور ہونی چاہیے لیکن امریکی مخالفت کا نتیجہ طالبانی سوچ کے حق میں نہیں نکلنا چاہیے۔ اگر امریکہ پاکستان کادشمن ہے تو یہ طالبان نما بھیڑیے بھی امریکہ والا ہی کام کررہے ہیں۔ امریکہ اور طالبان دونوں ہی ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کو پے در پے سازشوں کا شکار کر رہے ہیں۔
وقت نے الطاف حسین کی بھی سوچ کو سچ ثابت کردیا ہے۔ ایم۔کیو۔ایم چیختی رہی کہ آئی ڈی پیز کے روپ میں دہشتگرد کراچی میں گھس گئے ہیں۔ اس وقت ہم نے ایم کیو ایم کی قیادت پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ آج ہم اہم ترین دہشتگرد رہنما کراچی سے گرفتار کر رہے ہیں۔ اسے معجزہ کہیے اور پاکستانی قوم کو مبارکباد دی جانی چاہیے کہ اہل کراچی افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سیاسی عمل کے فروغ اور قومی یکجہتی کے اظہار کے لئے متحدہ قومی موومنٹ نے نہ صرف یہ کہ پنجاب میں اپنی شاخیں کھولی ہیں بلکہ گلگت ‘بلتستان تک متحدہ کا پرچم لہرا دیا ہے۔ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کومتحدہ کی اس قومی سوچ کا کھلے دل سے استقبال کرنا چاہیے اور یک آواز ہو کر آپریشن میں مصروف فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ قومی بقاءکی جنگ افواج پاکستان سے غیر مشروط محبت کا تقاضا کررہی ہے۔