Apr
23
|
Click here to View Printed Statement
اپر کلاس دانشوروں کے ہاں نظریات اور عقائد کو عمومی طور پر تنگ نظری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آجکل تو فیشن بن گیا ہے کہ جوں ہی کسی نے خدا ‘رسول اور قرآن کے حوالے سے ملکی معاملات میں کوئی دلیل لانے کی کوشش کی وہیں اسے مذہبی انتہا پسندی کا لیبل لگا کر ناقابل سماعت قرار دے دیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کی وجوہات بھی نئی نئی گھڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا خوب موقعہ دیا گیا جو دو قومی نظریے کی بجائے پاکستان کے قیام کو معاشی سبب قرار دیتے ہیں۔ لنڈا بازار کے ایسے دانشور بھی ہمارے قلب و ذہن پر کوڑے برساتے رہے جو پاکستان کو برطانیہ اور امریکہ کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ہم نے تو ایسے ایسے اجنبیوں کو ٹی وی سکرین پر گھنٹوں مغز خوری کرتے سنا جو تقسیم ہند کو حادثہ قرار دے کر تحریک قیام پاکستان کا سرے سے انکار کردیتے ہیں۔پاک بھارت ایک ہوجانے کے فوائد کا نقشہ کھینچنے والے چہرے ہنوز ہمارے پردہ بصارت پر پرچھائیاں بکھیرتے ہیں۔شائد پاکستان وہ واحد بدقسمت ملک ہے جس کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ پینسٹھ برس گزرنے کے بعدبھی اس کے وجود کے اسباب پر قوم کو الجھائے ہوئے ہیں۔ کوئی اس مملکت اسلامیہ کو سیکولر بنانے پر تلا بیٹھا ہے اور کسی نے اسے ناکام ریاست ثابت کرنے کے لئے ادھار کھایا ہوا ہے۔ سرحد پار کے نامی گرامی بھارتی دانشور تو پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارے اپنے دانشور دو قومی نظریے کا ذکر کرتے ہوئے شرمندگی میں ڈوب جاتے ہیں۔
خیال یہی تھا کہ سابق عسکری معززین کی محفل میں نظریہ پاکستان کا حوالہ بے زاری کا سبب بنے گا کہ مشرف دور کی روشن خیالی کا سب سے بڑا ہدف ہمارا یہی عظیم عسکری ادارہ تھا۔ تھنکرز فورم کے اجلاسوں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے اور فورم والوں کی مہربانی کہ مجھ جیسے سویلین کو اپنی ممبر شپ سے نواز رکھا ہے۔ یہاں سابق چیف آف آرمی سٹاف اور ضرب مومن جیسی شہر آفاق فوجی مشقوں کے خالق جناب جنرل (ر) اسلم بیگ جیسے حقیقی دانشمند تشریف لاتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور امریکیوں کے سامنے پاکستانی مفادات کا بھرپور طریقے سے مقدمہ لڑنے والے شیرجرنیل‘ جنرل (ر) اسد درانی اس فورم کے چیئرمین رہے اور آجکل پاکستان کے اندر گڈ گورنس کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے عدلیہ کی خودمختاری کے فکری مددگار ہیں۔فورم کے موجودہ چیئرمین سابق ایئرمارشل کلیم سعادت کا وجود سعید اس فورم میں ہونے والے بحث مباحثے کو سنجیدگی بخشتا رہتا ہے۔ کرنل (ر) بختیار حکیم ایک ادبی شخصیت ہیں اور مخلص استاد بھی۔ وہ اس فورم کے روح رواں اور سیکرٹری جنرل ہیں۔ جنرل (ر) ایس ایچ زیدی جیسی نابغہ روزگار شخصیت بھی فورم کے اجلاسوں کو رونق بخشی ہے۔ ایئرمارشل مسعود اختر‘ بریگیڈیئر نور ‘کرنل ریاض جعفری‘ نیوکلیئر سائنسدان سلطان بشیر محمود جیسے احباب اس فورم میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ دانشمندی اور دور اندیشی کا یہ حسین گلدستہ ہر ماہ ایک بار سجتا ہے۔ یہاں قومی اور بین الاقوامی امور کو بڑی باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے اورفورم اپنے ممبران کے خیالات و افکار کو تازہ بہ تازہ رکھتا ہے۔ اگر یہاں ہونے والی بحثوں کو سمیٹ اور سنوار کر کتابی شکل دی جائے تو اہل اقتدار اور اہل سیاست کے لئے قابل عمل مشاورت کی باقاعدہ دستاویز بن جائے۔
گزشتہ اجلاس تھنکرز فورم پاکستان کا تیسرا سالانہ اجلاس تھا جس میں ممبران کے علاوہ بھی احباب نے شرکت کی۔ فورم کی خوبصورت روایت یہ ہے کہ تمام شرکاءکو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ میں نے خصوصی دعوت پر آئے ہوئے اپنے دوست کالم نگار بیگ راج کا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اسلام آباد چیپٹر کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس پر شریک محفل ایک سابق آئی جی پولیس نے رائے دی کہ ہماری قوم ابھی تک نظریوں کے چکر میں پڑی ہے۔ اور عمل کی بات کوئی نہیں کرتا۔ اس پر میں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے بنائے گئے اپنے نظریاتی سکول کا حوالہ دیا اور معززممبران کو دورے کی دعوت دی ۔جسے کرنل بختیار حکیم نے بخوشی قبول کیا اور ذاتی حیثیت میں ہر ماہ دو گھنٹے کا وقت دینے کا وعدہ کیا۔دیگر ممبران نے بھی نظریاتی پاکستان کے حوالے سے اپنے مختصر لیکن مثبت کمنٹس دیئے اور آخر پر جناب کلیم سعادت نے ان بکھرے ہوئی آراءکو یکجا کرتے ہوئے پورے ہاﺅس کی طرف سے اعلان کیا کہ ”نظریہ پاکستان ہی قیام پاکستان کی صحیح بنیاد ہے اور نظریہ پاکستان غلط نہیں ہمارے اعمال اس نظریے سے مطابقت نہیں رکھتے“۔ نہ صرف یہ کہ عسکری کلاس کے دانشوروں کے اس فورم میںنظریہ پاکستان کی زوردار بازگشت سنائی دی بلکہ طے ہوا کہ فورم کے آئندہ اجلاس میں بحث کا موضوع ہی نظریہ پاکستان ہوگا اور اس موضوع پر جناب سلطان بشیر محمود لیکچر دیں گے جبکہ راقم کو بطور پینل ایکسپرٹ شرکت کا حکم دیا گیا ہے۔