May
05
|
Click here to View Printed Statement
لوگ مغموم بھی دکھائی دیئے۔آنسو بھی ٹپکے۔ماتمی دھنیں بھی بجائی گئیں اور شہداءکے مزاروں پر پھول بھی نچھاور کئے گئے وہ مائیں‘بہنیں اور بیٹیاں بھی تھیں جن کے عزیز دفاع وطن کی جنگ لڑتے زندگی کی سرحد پار کرکے شہادت کے تخت پر جلوہ گر ہوگئے۔ وہ ننھے بچے بھی تھے جن کے پاپا نے جام شہادت نوش کرتے وقت کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔پورا دن نغمے گونجتے رہے۔ پندرہ ہزار سے زائد شہداءاپنے دامن میں لئے دہشتگردوں کے سرپر وار کرتی افواج پاکستان نے تیس اپریل کو اپنا پہلا یوم شہداءمنایا۔ جنرل ہیڈکوارٹرز میں شام کے وقت یادگار‘ شہداءکی رونمائی ہوئی۔
چیف آف آرمی سٹاف نے سنجیدگی اور عزم سے لبریز لہجے میں ایک مختصر سا تاریخی خطاب کیا۔ ”قوم اور فوج‘ فوج اور قوم دونوں ایک ہیں“۔ عوام اور فوج کو دو طبقوں میں تقسیم کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔” فوج کے شہداءقوم کے شہداء ہیں“۔یہ کہہ کر دراصل افواج پاکستان کے سربراہ نے ملت پاکستان کو بہت بڑا تحفہ دے دیا ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ایمان رھا ہے کہ ہماری فوج ایک اسلامی فوج ہے۔ اگر ہم طالع آزماءجرنیلوں کو فوج کی عسکری تاریخ سے خارج کردیں تو پھر یہ دنیا کی بہترین منظم اور محب وطن فوج ہے۔ سپہ سالار اعظم شہداءکے والدین کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔”پاکستان صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بلکہ ایک مسلمہ نظریہ بھی ہے اور اس کا دفاع صرف ایک قومی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے“۔چیف صاحب کے یہ تجزیاتی کلمات دراصل ملک کی نظریاتی سرحدوں کا تعین کرتے ہیں۔ہماری مسلح افواج ملک کی جغرافیائی ہی نہیں نظریاتی سرحدوں کی بھی پاسبان ہیں۔ سوات ‘مالاکنڈ اور وزیرستان کے اندر شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن دراصل ان گمراہ قوتوں کیخلاف جنگ ہے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کے حقیقی پیغام کو اپنی محدود سوچ سے نقصان پہنچایا۔ بلکہ پاکستان کے اسلامی آئین سے بھی روگردانی کی ہے ۔ یہ وہ گروہ ہیں جو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کو ملائیت کی راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں ۔قرارداد مقاصد میں جس واضح منزل کا تعین کردیا گیا ہے اس منزل سے دور کرنے والا ہر عمل خلاف اسلام ہے۔ خود کو”طالبان“ کہنے والے پاکستان اور اسلام دونوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر اسلامی فلاحی ریاست کے مقصد کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف جنگ لڑنا عین جہاد ہے اور افواج پاکستان کے وہ ستائیس سو افراد اور جوان جنہوں نے ان شرپسندوں کا صفایا کرنے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں وہی سچے شہداءاور حقیقی مجاہدین ہیں۔
پہلا یوم شہداء اپنی تمام تر تیاریوں کے باوجود ادھورا لگا۔ فوج کے شہید قوم کے بھی شہید ہیں پھر اس یوم کو فوج کی بجائے قومی سطح پر کیوں نہیں منایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومتی سطح پر تیس اپریل کو پورے ملک میں تعطیل ہو۔سرکاری‘عوامی اور عسکری حلقے اپنے اپنے طور پر شہداء کی یاد میں تقریبات کا اہتمام کریں۔شہر میں بڑی بڑی شہادت ریلیاںمنعقد کی جائیں۔ ہمارے بہادر شہداء کے بڑے بڑے پورٹریٹ چھاپے جائیں۔ اخبارات اپنے طور پر شہدا نمبر شائع کریں اور صرف شہداءکے لواحقین ہی نہیں عام پاکستانی بھی پھول لے کر شہداءکی قبروں پر حاضری دیں۔
امید کی جانی چاہیے کہ جنرل کیانی نے جس قومی تقاخر کو اجاگر کرنے کی رسم ڈالی ہے وہ آئندہ تیس اپریل تک قومی تحریک کی شکل اختیار کرلے اور 30اپریل 2011ء میں ہم ادھورا نہیں پورا یوم شہداءمنا کر دین و وطن کے دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے نظر آئیںگے۔!