Mar
28
|
Click here to View Printed Statements
جب سے لفظ شناسی کے درجے کو پہنچے ہیں پاکستان کے حوالے سے ہر دور میں لفظ ”بحران“ کا تکرار سنا ہے۔بحران در بحران‘ایک سے نکلیں تو دوسرے میں پھنس جائیں گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ دیگر قومیں اور ممالک بحرانوں سے نکلتے جارہے ہیں اور ہم اس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ماہرین اقتصادیات اور دانشوران معاشیات اب اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ مستقبل کے پاکستان کو توانائی کے شدید ترین بحران کا سامنا کرنا ہے۔ بجلی‘ گیس ‘کوئلہ اور تیل یہ توانائی کے چار بڑے ذرائع ہیں اور انہی ذرائع سے ہم مشین کا پہیہ چلاتے اور فیکٹری کی چمنیوں سے دھواں اگلتے ہیں۔ گھر میں روشنی کرنا ہو یا تندرو تپانا ہو‘ہوا میں تیرنا ہو یا سمندر میں غوطہ زنی کرنی ہو‘سڑک پر فراٹے بھرنے ہوں یا کھیت کھلیانوں میں فصلوں کو لہلانا ہونا۔ ہر خوشی اور خوشحالی کے لئے توانائی کاکوئی نہ کوئی ذریعہ درکار ہے۔ تیل جلاتے ہیں اور اس سے تھرمل پاور پیدا کرتے ہیں۔جلانے کے لئے تیل کا حصول اب دل جلانے سے کہیں زیادہ کار دل فگار ہے۔ تیل بیرون ممالک سے آتا ہے۔ یہ ڈالروں کے سکے میں خریدا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈالرز نہیں روپیہ ہے۔ ہم تقریباًسو روپے جمع کریں تو ایک منحوس ڈالر کا پیٹ بھرتا ہے۔ 2015ءتک اندازہ ہے کہ ہمیں تیل کی درآمد پر ہر سال اڑتیس ارب ڈالر تک خرچ کرنے پڑیں گے۔ یہ ڈھیر سارے ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ ہماری برآمدات کا ہدف دو ہزار پندرہ تک زیادہ سے زیادہ پندرہ ارب ڈالر ہوگا۔ ہم پندرہ ارب ڈالر کمائیں گے اور دگنے ڈالر دے کر تیل خریدیں گے۔ جب ایسا نہیں کرسکیں گے تو پھر چلتی فیکٹریوں میں سے آدھی سے زیادہ بند کریں گے‘روشن گھروں میں جلتے قمقموں کا گلا گھونٹیں گے اور ہوائی جہازوں اور ٹرینوں کے روٹ بیچیں گے یا انہیں گراﺅنڈ کردیں گے۔آبادی بڑھتی جائے گی اور بجلی کی پیداوار روز بروز کم ہوتی جائے گی۔ ہائیڈل پاور پراجیکٹس کے لئے ہائیڈل پاور چاہیے۔اس کے لئے آبی ذخائر یعنی ڈیم بننے ہیں۔ کب بنتے ہیں ‘کہاں بنتے ہیں۔ایک خواب اور خیال کے سوا اس باب میں رکھا کیا ہے؟ کوئی عالمی‘قومی بینک سرمایہ کاری کے لئے تیارنہیں۔ بھاشا ڈیم ایک مدہوم سی امید ہی تو ہے! جتنے عرصے میں ہم ڈیموں کے لئے سرمایہ تلاش کریں گے۔ اتنی مدت میں ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے باقی ماندہ دریاﺅں کا جوہر نچوڑ چکا ہوگا۔ ہم عالمی منصفوں سے منصفی کی بھیک مانگ رہے ہوں گے اور جب مایوسی پوری طرح چھا جائے گی تو پھر ”جنگِ آب“ شروع ہوجائے گی۔ پانی ملے یا نہ ملے خون ضرور بہتا دکھائی دے گا۔ جنگ نہ ہوئی تو ہم پچکے جسموں کے ساتھ صحرا کی موت مر جائیں گے۔
دنیا میں گیس کے ذخائر بے پناہ ہیں ۔ ایران سے معاہدہ ہوچکا لیکن طاقتوروں کی طرف سے اجازت نہیں کہ ہم اس پائپ لائن پر آگے بڑھیں‘ہمیں ترکمانستان کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور خبرگرم ہے کہ ازبکستان نے صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستان ترکمانستان سے گیس حاصل نہیںکرسکتا۔ اب کہاں جائیں؟ قطر والے کیا کریں گے ۔ ہم گیس کے پائپوں میں صرف سُوں سُوں سنا کریں گے۔ صنعت و حرفت کا پہیہ تو جام ہوگا ہی‘گھروں کے چولہے ٹھنڈے ٹھار پڑ جائیںگے۔
سولر سوسائٹی آف پاکستان کے صدر شاہد اعوان اور سیکرٹری جنرل علی ذوالقرنین سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان کی کل آبادی کے صرف 40فیصد حصے کو اس ادھموئی سی بجلی کی سہولت حاصل ہے۔ صرف 20فیصد آبادی کو گیس سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع میسر ہے۔2015ءتک آبادی کے اس حصے کو بھی یہ سہولت میسر نہیں رہے گی۔ ہم استعمال شدہ ٹشو پیپر جلا کر چائے بنایا کریں گے اور سورج ڈھلتے ہی حیات ہمہ گیر کی سرگرمیاں بھی ڈھل جائیں گی۔پتھر کا زمانہ دیکھا نہیں لیکن قرائن سے لگتا ہے کہ دو چار برس بعد یہ بھی دیکھ لیں گے۔
کوئلہ بہت ہے۔ہمارے سائنسدان فرماتے ہیں کہ ملک میں تھر کے علاقے میں کوئلہ کی اعلیٰ کوالٹی کا اس قدر ذخیرہ ہے کہ آئندہ پانچ سو برس تک نہ صرف یہ کہ ملک کی گیس اور حرارت کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے بلکہ ہم ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سائنسدانوں کے منہ میں گھی شکر! لیکن کوئلہ تہہ زمین سے خودبخود نکل کر ہماری بھٹھیوں میں کیسے پہنچ جائے گا۔ سنا ہے کہ کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے والی ایک مشین جاپان سے آئی تھی۔وہاں پر زلزلہ‘ سونامی اور تابکاری سے مشین کی درآمد رک گئی ہے۔ ابھی پائلٹ پروجیکٹ شروع ہوگا۔ چین والے ناراض ہو کر الگ بیٹھ گئے ہیں۔پہلے ہم نے انہیں یہ کام سونپا تھا‘پھر خدا جانے ہمارے تیز رفتار دماغوںنے عہد شکنی کیوں کی۔ اب ہم مختلف سرمایہ کاروں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ کب نومن تیل ہوگا اور کب رادھا ناچے گی!۔
بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت طلب سے زیادہ ہے لیکن تیل خریدنے کیلئے رقم نہیں۔بجلی کی بچت کے چرچے رہتے ہیں لیکن 30فیصد تو لائن لاسز میں ضائع ہوجاتی ہے۔ کیسا ظلم ہے کہ ان لائن لاسز کو کم دکھانے کے لئے ہمارے متعلقہ محکمے لوگوں کے میٹر تیز کردیتے ہیں۔گزشتہ چالیس برسوں سے بجلی پر چلنے والے ٹیوب ویل پر سبسڈی کی رقم بلوچستان ‘ اندرون سندھ اور صوبہ خیبرپختونخواہ کھا جاتے ہیں۔جرمانہ پنجاب کو بھرنا پڑتا ہے! جب صورتحال یہ ہو تو پھر بجلی کیلئے رقم کہاں سے آئے گی۔ ہماری قومی حالت یہ ہے کہ ہمارے لوگ” ایئرکنڈیشنڈ لائف “ کو ترک کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔آج ہم ایئرکنڈیشنڈ بند کردیں اور قصر صدارت سے لیکر افسران خاص تک تمام کے تمام گھروں سے یہ برق خور مشینیں اٹھالی جائیں تو بجلی کے بحران کو فی الفور کافور کیا جاسکتا ہے ۔لیکن قوم اور حکمران سب ایک ہی مرض میں مبتلا ہیں۔تن آسانی‘ ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی اور مانگ تانگ کر گزرا!
توانائی کے متبادل ذرائع کے لئے بورڈ بنے‘ایجنسیاں متحرک ہوئیں۔ ونڈ ٹربائن‘ سولر واٹر ہیٹر‘بائیو ڈیزل‘ سب کاغذی منصوبے ثابت ہوئے۔متبادل توانائی بورڈ کے چیئرمین عارف علاﺅ الدین حقائق کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان ایسے خطے میں ہے جہاں پر سورج کی شعاعیں سب سے زیادہ وقت موجود رہتی ہیں‘ ہمارے ساحل سمندر پر ایسے بے شمار مقامات ہیں جہاں سال بھر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں ‘ہماری زمین پر تیل پیدا کرنے والے پودے اور فصلیں بوئی جاسکتی ہیں۔ اگر ایک جھونپڑی میں پانچ ہزار روپے سے سولر سیل لگا کر عمر بھر کے لئے روشنی کی جاسکتی تو یہ کیا جانا چاہیے۔ یہ ”سولرسیل“ مفت بانٹے جانے چاہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ بیت المال اور غربت مٹاﺅ سکیمیں۔آخر ہر جھونپڑی والے کو ایک سولر لالٹین کیوں نہیں دیتے‘کم از کم وہ اس کی روشنی میں اپنے دریدہ دامن کو دیکھ تو لے‘مٹیالا پانی پیتے وقت حشرارت الارض کو پھونک ہی مار سکے!
کیا ہم چین سے یہ سستا سا نسخہ بھی حاصل نہیں کرسکتے! افسوس کہ غریبوں کی جھونپڑیوں میں چراغ جلانے کیلئے معمولی سی سرمایہ کاری کے بھی ہم قابل نہیں رہے۔”کک بیک“ کے چکر میں ہم ”بیک ہی بیک“ ہورہے ہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ عوام سرمایہ کاری کرے‘ عوام سوچتی ہے کہ یہ کام حکومت کے ہیں۔حکمرانوں کو اطمینان ہے کہ اگر توانائی کا یہ بحران اسی رفتار سے بھی جاری رہے تو بھی ان کے بنگلوں ‘شیش محلوں اور ایوان ہائے اقتدارمیں روشنیاں جگ مگ کرتی رہیں گی۔ ملک بھر اندھیروں میں ڈوب جائے انہیں اس سے کیا ۔چند اور رینٹل پاور پروجیکٹس کرائے پر لے کر کارسلطنت تو چلاتے ہی رہیں گے ۔بحران دراصل توانائی کا نہیں ہماری نیتوں کا ہے۔ ہمارے ارادوں کا ہے اور ہماری فکر ونظر کا ہے۔ اقبال نے کہا تھا‘
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
فیصلہ کرنے والے ”پیروں“ کے جب تک عوام کش انداز نہیں بدلتے‘بحران‘ بحرانوں کو جنم دے کر بڑا کرتے رہیں گے۔