Mar
09
|
Click here to View Printed Statements
میں پنجاب حکومت کا خیرخواہ ہوں ‘ مشیر نہیں۔ویسے بھی میاں محمد شہبازشریف کے اردگرد نو نہیں ننانوے کے قریب رتن ہیں جو ہر روز دلکش اشتہار ڈیزائن کرواتے ہیں۔خادم اعلیٰ پنجاب کے ”خادمین“ کی تعداد ہی نہیں استعداد بھی قابلِ رشک ہے۔”لیپ ٹاپ سے قوم کی تقدیر بدل جائے گی“ جیسی خوشخبریاں گھڑنے والے اور ”دانش“ سکولوں کے جال سندھ تک پھیلا دینے کے دعوﺅں کے پیچھے کارفرما علم و عرفان کی کیا حد ہوگی!آج کل میاں محمد شہبازشریف فیڈرل کا ستروثانی کے طور پر سرمایہ داروں کیخلاف جس روانی کے ساتھ تقاریر فرماتے ہیں اور سلاست کے ساتھ اشعار گنگناتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے
کہ پاکستان میں انقلاب کے اصل نقیب عمران خان نہیں بلکہ میاں برادران ہیں۔یہ الگ بات کہ گذشتہ چار برسوں میں نہ میاں برادران کی دولت میں کمی آئی نہ ہی ان کے ہمرکاب”انقلابیوں“ کی تجوریاں ہلکی ہوئیں۔پنجاب کا غریب مزید غریب ہوگیا اور خوشحالیاں صرف اور صرف اخبارات میں تواتر کے ساتھ شائع ہونے والے رنگین اشتہاروں میں رہ گئیں۔پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ”بلامقابلہ“ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کے بعد عرض ہے کہ شہرت کی بلندیوں کو چھوتی پنجاب حکومت کبھی کبھی ناموری کے آسمان سے نیچے بھی اتر آیا کرے اور لمحہ بھر دیکھ لیا کرے کہ کہیں پائے اقتدار کے نیچے کوئی مقدس حوالہ کوئی چاند‘کوئی ستارہ تلملا ہی نہ رہا ہو۔معاملہ کچھ زیادہ سنگین نہیں ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ہوا اگر اسلام آباد‘راولپنڈی اور مری میں واقع پنجاب ہاﺅسز کے اندر ایسے ٹشو پیپرز استعمال کئے جارہے ہیں جن پر حکومت پنجاب کا سبز رنگ کا مونوگرام چھپا ہوا ہے۔بے شمار سرکاری اور پرائیویٹ ادارے ہیں جو کمپنی کی مشہوری کے لئے ٹشو پیپرز پر پراڈکٹ کا عکس چھاپ دیتے ہیں اور یہ ٹشو پیپرز کھانے کی ٹیبل پر گلاسوں کے اندر سجا دیئے جاتے ہیں۔آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔اصل میں میرے نزدیک بھی ٹشو پیپر پر کس کمپنی کا ”لوگو“ چھاپ دینا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ راقم کو مری پنجاب ہاﺅس میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے پنجاب حکومت والے مونوگرام والے ٹشو پیپرز کا ”ناجائز“ استعمال ہوتے دیکھا تو دل میں ایک کسک سی اٹھی۔ کاش کہ جناب وزیراعلیٰ اخبار میں ایک اشتہاری مہم چلائیں”ٹشو پیپر کے استعمال کا صحیح طریقہ۔ خادم اعلیٰ پنجاب ہر کس وناکس کو آگاہ فرماتے ہیں کہ ان ٹشو پیپرز کو منہ پر مارنے کے علاوہ کہیں اور استعمال نہ کیا جائے۔ ورنہ خادم اعلیٰ ایسے گستاخوں کو موقع پر خود سزا دیں گے“۔ایک بڑے صاحب نے کھانا کھانے کے بعد اس ٹشو پیپرز سے اپنے ہاتھ صاف کئے۔اچانک ان کی نگاہ اپنے قیمتی جوتوں پر پڑی تو انہیں ان جوتوں کی چمک ماند پڑتی دکھائی دی۔ انہوں نے فٹا فٹ دوسرا ٹشو پیپر اٹھایا اور اپنے بوٹوں کو چمکانے لگے۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھ لیا جائے تو حقیقت یہ کہ میں نے انہی ٹشو پیپرز کو واش روم میں بھی دیکھا۔پنجاب ہاﺅس کے رہائشی کمروں میں نہیں جاسکا لیکن غالب امکان یہی ہے کہ وہاں رہائش پذیر مہمان اور ان کے خاص مہمان ان ٹشو پیپرز کے جا بے جا استعمال سے ضرور لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔پنجاب حکومت کے مونو گرام میں پانچ دریا دکھائے گئے ہیں۔گندم کی بالیاں بنائی گئی ہیں اور اوپر ہمارا قومی نشان چاند اور ستارہ نمایاں کئے گئے ہیں۔پاکستان کا پورا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے۔ اس کے نشان کا تقدس ایسے ہی ہے جیسے ہمارے قومی جھنڈے کا تقدس ہے۔ اگر کوئی بدبخت ہمارے قومی جھنڈے سے جوتے صاف کرے‘ یا خدانخواستہ اسے ٹائلٹ میں استعمال کرے تو محب وطن ہونے کے حوالے سے ہم اسے گستاخ پاکستان قرار دیں گے اور ایسی قبیح حرکت کرنے والے کی پہلے خود دھلائی کریں گے پھر آئین پاکستان کے تحت اس پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے اسے سنگین ترین سزا بھی دلوائیں گے۔ہماری پاکستانیت کا یہ کم از کم تقاضا ہوگا۔آپ بتایئے کہ حکومت پنجاب کو ہم کیا کہیں ؟ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔البتہ مفت مشورے کے طور پر جناب شہبازشریف سے التماس ہے کہ وہ ان ٹشو پیپرز کے استعمال کو فوری طور پر روک دیں۔ اگر یہی حرکت کسی دشمن ملک نے کی ہوتی تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ کاش کہ ہمارے وزیراعلیٰ شہرت کی بلندیوں سے تھوڑی دیر نیچے اتر کر اپنے صوبے کو یوں بے آبرو ہونے سے بچا لیں۔