Mar
14
|
Click here to View Printed Statements
پاکستان میں امراض چشم کے مریضوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔آبادی بڑھنے کی رفتار کے ساتھ آنکھوں کے علاج معالجے کی سہولتیں نہیں بڑھیں۔سرکاری ہسپتالوں میں خیر سے ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“والی صورتحال ہے اور صحت کے سالانہ بجٹ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ زیادہ بنتی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ مخیر پاکستانیوں نے ایسے رفاعی اداروں کی بنیاد ڈالی جو دن رات لوگوں کےلئے علاج معالجے کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اب صرف گنگارام‘گلاب دیوی جیسے ہسپتال ہی نہیں شوکت خانم‘الشفا ٹرسٹ ‘ جیسے ادارے بھی نمایاںکام کر رہے ہیں
اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی خیراتی ہسپتال بہت بہتر خدمات سرانجام دے رہے ہیں کیونکہ ان اداروں کے پیچھے جذبہ خدمت انسانی کار فرما ہے اور ان اداروں کو عطیات دینے والے پاکستانیوں کی نیت میں کسی قسم کا روبار نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی متحرک رہتی ہے۔ شوگر اور موروثی بیماریوں کے سبب پاکستان کے اندر ہر پانچواں شخص آنکھوں کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہورہا ہے۔ حکومت کو توجہ دلانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں لیکن رفاعی ہسپتالوں کی انتظامیہ کو جہاں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے وہیں بعض امورایسے بھی ہیں جن کی طرف توجہ کرانا ضروری ہے۔گراہم لیٹون اور ذکا رحمت دو کاروباری دوست تھے۔انہوں نے 1984ءمیں کاروبار سے فارغ ہونے کے بعد جب اپنے اردگرد بینائی سے محروم لوگوں کو بے بسی کے عالم میں دیکھا تو فیصلہ کیا کہ آنکھوں کے علاج معالجے کے لئے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں مریضوں کا مفت علاج ہو‘ معیاری علاج ہو اور رنگ‘نسل‘ علاقے کی تفریق کے بغیر ہر پاکستانی کا علاج ہوسکے۔ایل ۔آر۔ بی۔ٹی کے نام سے قائم ٹرسٹ نے گزشتہ ربع صدی سے ملک بھر کے اندر 16بڑے ہسپتال اور چالیس کے لگ بھگ کمیونٹی آئی ہیلتھ سنٹرز قائم کردیئے ہیں جہاں ہر روز ہزاروں مریضوں کی آنکھوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔خدمات کے لحاظ سے یہ ہسپتال جنرل (ر) جہانداد (مرحوم) کے آئی ہسپتال کے برابر تو نہیں لیکن قصبوں کے اندر اس کا نیٹ ورک وسیع ہے۔ہماری دعا ہے کہ امراض چشم کی یہ علاج گاہ لوگوں کو روشنیاں لوٹاتی رہے۔مسیحائی ایک مقدس پیشہ ہے۔ اگرچہ آج کل بعض ڈاکٹرز ڈاکو بن چکے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں ڈاکٹروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں‘ایسی ہی چند کالی بھیڑیں ایل۔آر۔بی ٹرسٹ میں بھی گھسی ہوئی ہیں جن کی دست شقاوت قلبی اور بدز بانی سے نہ صرف یہ کہ غریب مریضوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ اس رفاعی ادارے کی ریپوٹیشن بھی خراب ہوتی ہے۔ میرے انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر جاوید قریشی مندرہ میں واقع ایل۔آر۔بی ٹرسٹ کے آئی ہسپتال میں سفید موتیا کے آپریشن کے لئے گئے اور ایک ڈاکٹر کی ”چیرہ دستی“ اور ”لسانی بدکاری“کا شکار ہوگئے۔انہوں نے بتایا‘”میرا خیال تھا کہ شائد مریضوں کے رش کے سبب ڈاکٹر اور عملے کا رویہ سخت ہے۔لیکن دادی کی عمرکے برابر کی ایک ضعیف عورت کو ڈاکٹر نے ”تو“ کے لفظ سے مخاطب کرکے ”تکار“ پر ختم کیا اور انتہائی حقارت سے اس کی پرچی پر دوائی لکھی ۔ میں تو عطیہ کی رقم جمع کراچکا تھا اور میرا خیال تھا کہ شائد”مفت بری“ کے سبب ڈاکٹر صاحب درشت روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔لیکن مجھے کیا علم کہ یہاں سب کے ساتھ برابری کی بدتمیزی کا رواج ہے۔خدا خدا کرکے باریش ڈاکٹر نے میری سرجری کردی اور سرجری کے دوران بھی وہ مجھے جھاڑیں پلاتے رہے۔ پٹی کھلنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھ کی ”آئی لٹ“ اوپر نہیں اٹھ رہی۔ میں گھبرا گیا۔ڈاکٹر کے پاس گیا اور اپنی بپتا بیان کی“”آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ “”اور کہاں جاﺅں “”میرا کام آپریشن کرنا تھا کردیا“۔” لیکن ڈاکٹر صاحب مجھے درد ہورہا ہے اور آنکھ کھل نہیں رہی“۔”درد کی کوئی دوا لے لو۔ چھ ماہ بعد آنا پھر آپریشن کروں گا اور آنکھ کو اوپر کی طرف ٹانکے لگا دوں گا“۔میرے دوست بتاتے ہیں کہ میں راولپنڈی سے مندرہ کوئی چھ مرتبہ گیا ۔لیکن ڈاکٹر کا رویہ یہی رہا۔ میں نے مقامی انتظامیہ سے شکایت کی تو انہوںنے کہاکہ بڑا ڈاکٹر ہے۔میں نے سوچاطبیب اکبرحقیقت میںطبیب اصغر لگتا ہے۔مریض تو مجبوری کے سبب یہاں بیٹھے ہیں آپ انہیں سمجھائیں۔ ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جناب یہ ڈاکٹر صاحب الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال سے بھی نکالے گئے تھے لیکن ایل۔آر بی ٹی کے ایک ممبر سے ذاتی تعلقات کی وجہ سے یہاں ہیں ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے“۔میرے دوست ڈاکٹر قریشی نے مایوس ہو کر الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال سے معائنہ کروایا اور انہیں پتہ چلا کہ سرجری کے دوران کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ اللہ کے فضل سے اب ان کی آنکھ ٹھیک ہے لیکن میں اس ملک کے ڈاکٹروں اور خصوصاً آنکھوں کے معالجین سے عرض کروں گا کہ خیراتی اداروں میں کام کرتے وقت سرکاری ہسپتالوں والی اکڑفوں ایک طرف رکھ دیا کریں کہ ڈاکٹر کا اچھارویہ آدھے مرض کو ختم کردیتا ہے۔آپ کا رویہ اچھا ہوگا تو ان اداروں کو عطیات ملتے رہیں گے اور لوگوں کی خدمت ہوتی رہے گی۔مریضوں کی تعداد میں ویسے ہی اضافہ ہورہا ہے۔خدارا ان اداروں کو اپنے رویے سے مت ڈبوئیں !! بینائی کی مسیحائی بغیر دلجوئی نامکمل ہوگی! 287افضل گوریہ