Apr
23
|
Click here to View Printed Statements
یہ پہلی بار تو نہیں ہوا کہ افواج پاکستان پر ایسی آزمائش آئی ہو۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے کے دوران ہمارے بہادر فوجیوں نے لازوال قربانی دی۔آفات ارضی وسماوی کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔ آپ فوجوں کی تاریخ پڑھیں’لاکھوں فوجی ہیضے سے مر گئے’ملیریا سے جتھے کے جھتے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ آندھیاں آئیں اور توپ وتفننگ تک اڑا لے گئیں’ بگولے آئے’آتش فشاں پھٹے’ سونامی ٹکرائے’ فوجی غیر فوجی سب کچھ بہہ گیا۔پہاڑ سرکے اور قافلوں کے قافلے دب گئے۔آخر ایسی کونسی انوکھی بات ہوئی ‘کونسا مافوق الفطرت سانحہ اور حادثہ ہوا کہ دفاع وطن کے بنیادی ذمہ داری سے ہی فرار کی راہ ڈھونڈی جارہی ہے۔
اگر سیاچین میں برفانی تودہ گرنے کا سانحہ رونما ہوا ہوتا تو پھر بھی سیاچین سے فوجیں واپس بلانے کا واویلا کیا جارہا ہوتا؟ کسی کو اس جانب ہوش ہی نہیں تھا’نہ سیاچین کا محاذ مہنگا ترین محاذ تھا’ نہ فوجیں واپس بلانے کی تجویزیں تھیں۔ سب نارمل تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قومی رہنمائوں کی بصیرت سیاچین کی جانب سے قطعاً غافل تھی۔ہم نہیں جانتے کہ لیزر شعاعوں کے ذریعے برفانی تودے کو فوجی قافلے پر گرایا گیا ہے۔ یا یہ آفت قدرتی طور پر آئی ہے۔ صورتحال جو بھی ہو مصیبت کی اس گھڑی میں ہر پاکستانی ان تمام خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کر رہا ہے جن کے افراد اس تودے تلے دبے ہیں ۔ صحرا یا سمندر میں کسی بحری یا ہوائی جہاز کا غرق ہوجانا یا کسی طیارے کا فضاء میں پھٹنا اور سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجانا۔ ایسے حادثات کا شکار ہونے والے زندگی میں واپس بمشکل ہی آتے ہیں۔پاکستانی قوم کو بھی صبر کے ساتھ یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ سانحہ گیری سیکٹر کا شکار ہونے والے فوجی اور سویلین خالق حقیقی سے جاملے’ان کے بلندی درجات کے لئے دعا ہونی چاہیے اور موسموں کی تبدیلی کا انتظار کرنا چاہیے کہ کب فطرت مہربان ہو اور شہداء کی لاشیں اگل دے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ بڑے سے بڑے نقصان پر ”اناللہ وان علیہ راجعون” پڑھ لیا کریں۔وہ تو ویسے بھی نہ صرف شہید ہیں اور زندہ ہیں بلکہ ان کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے”قِیلَ الَد’خل الجَنَة”اسلام آباد کی پہاڑیوں سے طیارہ ٹکرا گیا تھا۔ تمام لوگ جاں بحق ہوئے۔ کیا اس کے بعد طیارے اڑا نابند کرادیئے گئے ۔ زلزلہ کے بعد کیا یہ فیصلہ ہوگیا کہ اب فالٹ لائن ایریاز کے قریب فوج تعینات نہیں کی جائے گی۔ کیافوجی بحری جہازوں کے ڈوب جانے کے بعد بحریہ کو خشکی کی فوج میں بدل دیا جاتا ہے۔ ہمارے کتنے جواں پائیلٹ دوران تربیت ہر سال شہید ہوجاتے ہیں۔ کس قدر ان کی تعلیم وتربیت پر پیسہ خرچ آتا ہےِ۔ کتنا مہنگا ہے ایئرفورس کا شعبہ’کیا کریں بھارت کو خوش کرنے کے لئے اپنی ایئرفورس ختم کردیں۔دہشتگردی کی امریکی جنگ میں گیارہ ہزار فوجی جاں بحق ہوچکے۔ کتنی مہنگی جنگ ہے یہ ۔ کیا اس محاذ سے واپسی کا فیصلہ ہوگیا؟مسئلہ یکطرفہ یا دو طرفہ انخلاء کا نہیں ہے مسئلہ دفاع وطن کا ہے۔سیاچین پر گھاس نہیں اگتی لیکن پورے پاکستان میں جو کچھ اگتا ہے اس کے لئے پانی کے چشمے سیاچین سے ہی پھوٹتے ہیں۔دریائے سندھ اور دریائے جہلم کا ماخذ سیاچین کے گلیشئرز ہیں۔ آپ اپنی فوجیں سیاچین سے یکطرفہ بلائیں یا دو طرفہ اپنے پانیوں کی حفاظت کہاں سے کریں گے۔ امریکی ضمانتیں اور بین الاقوامی عدالتیں بھارت کو دریائے چناب اور جہلم پر اٹھارہ ڈیم بنانے سے نہیں روک سکے۔ آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ آپ کے پیچھے آجانے کے بعد بھارت کارگل کا ”بدلہ” چکانے کے لئے آپ کے ناردرن ایریاز آپ سے کاٹ کر رکھ دے۔شاہراہ قراقرم پر قبضہ کر لے اور آپ پھر بھاگ کر امریکی صدر کے آگے دست بستہ کھڑے ہوں اورآپ کی کمزوری پر عالمی طاقتیں قہقے لگا رہی ہوں۔خدا جانے میاں محمد نوازشریف کو بھارت پر اس قدر اعتماد کیوں ہونے لگا ہے۔محض جنرل (ر) پرویز مشرف اور حکمران فوجی جرنیلوں کی مخالفت میں وہ پاکستان کے ازلی دشمن کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح کیوںگر گئے ہیں۔خدا اس ملک کی حفاظت کرے! میاں محمد نوازشریف اگر واقعتاً چاہتے ہوں کہ پاکستان کو ”مہنگے ترین” محاذ کے اخراجات سے نجات ملے تو اس بات کا کوئی مناسب فورم ہوگا۔ دفاعی نوعیت اور حساس قومی امور پر یوں سرعام گلفشانی کرنے کا مقصد دشمن کے موقف کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے۔ ایک واجپائی کو لاہور بلا لیا اور آج تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ بس جی بھارت رام ہوگیا۔ کیا سوچ رہے ہیں اور یہ کیسا انداز فکر ہے میاں صاحب کا؟مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج ہر روز نیا ظلم ڈھاتی ہے۔آپ بھارت سے مطالبہ کریں کہ کشمیر سے فوج واپس بلائے تو ہم بھی سیاچین سے دوطرفہ واپسی پر بات کریں گے۔ دفاع وطن کے لئے فوج پر اٹھنے والے اخراجات بہت کھٹکتے ہیں لیکن اپنے شاہانہ طرز زندگی اور بیرون ممالک پڑے کروڑوں ڈالرز کا جواز دے نہیں پاتے۔ خدارا محض شہ سرخیاں بنانے کے لئے وطن کے چہرے پر سیاہی مت ملیں۔اتنی بے چینی اچھی نہیں!