Jun
21
|
Click here to View Printed Statement
لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام نے حکمران مافیا کے گھروں پر یلغار شروع کردی ہے۔ایسے تمام گروہ’ادارے اور افراد جو اس باطل جمہوری نظام کو اٹھارہ کروڑ عوام پر مسلط کرنے میں براہ راست ملوث ہیں ان کے گھروں کو جلا ڈالنا چاہیے یہ گروہ ہے جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہے ‘انسانی ضرورتوں کا قاتل ہے ‘انسانی جذبوں کے لئے توہین کی علامت ہے یہ ممبران پارلیمنٹ’ یہ سینیٹرز’ یہ سیاسی مچھندر’یہ واپڈا’ پیپکو یہ سب اسی قابل رہ گئے ہیں کہ روشنیاں چھیننے کے جرم میں ان کے وجود سے نجات حاصل کر لی جائے۔
ستم درستم کو روا رکھنے والی حکومت کو صرف کوسنے اور گالیاں دینے سے غصہ کم نہیں ہوگا ان کے چہروں پر کالک ملنا چاہیے۔ ان کے جسموں کو لہولہان ہونا چاہیے۔ سب نے عوام سے دھوکہ کیا۔ مسند اقتدار تک پہنچنے کیلئے جھوٹ بولے اور اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بھی دروغ گوئی کی۔کیا اس کے لئے کوئی افلاطونی دماغ چاہیے کہ جب بجلی کی پیداوار کے لئے ڈیم نہیں بنائے گئے تو بجلی کہاں سے آئے گی۔ آسمان سے گرسکتی ہے باقی تو کوئی ایسا ذریعہ نہیں جہاں سے آٹھ دس ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال پورا ہوسکے یہ کرائے کے پاور ہائوسز ‘یہ ونڈ پاور پراجیکٹس’یہ تھرمل پاور پلانٹس’کہیں سے 50میگاواٹ ‘کہیں سے ڈیڑھ سو میگاواٹ ۔روپیہ دینے کے لئے نہیں۔بھاری رقوم تو اس نظام کو پالنے پوسنے پر خرچ ہوجاتی ہیں’پھر بجلی کی پیداوار کے لئے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔اشک شوئی کے تمام ڈرامے محض لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور جلتی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں۔پنجاب کے رہنے والوں کو پتھر کے دور میں دھکیل دیاگیا ہے۔ موجودہ صوبائی اور مرکزی حکومت ایک یونٹ بجلی پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔مرکزی حکومت صرف تین صوبوں کی حکومت ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام آتے ہی یہ خم ٹھونک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔کالاباغ ڈیم صرف پنجاب کے لئے نہیں پورے پاکستان کے لئے ہے۔ بڑے دعوے اور نعرے لگائے گئے کہ بھاشا ڈیم’ منڈا ڈیم اور خدا جانے کون کون سے ڈیم بن رہے ہیں۔سب فراڈ۔ کوئی ایک بڑا ڈیم بھی زیر تعمیر نہیں۔چند چھوٹی چھوٹی ڈیمیاں بن رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی دعوے ہیں کہ عوام انتظار کریں بجلی آرہی ہے۔لوڈشیڈنگ ختم ہونے والی ہے اور عدم توانائی کا عالم یہ ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں دو گھنٹے آتی ہے اور آئندہ برس اگر بھارت یا ایران سے بجلی فوری طور پر درآمد نہیں کی جاتی تو ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ بجلی ملا کرے گی۔ یہ وہ حقائق ہیں جو حکمرانوں کو ازبر ہیں لیکن وہ جھوٹ بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ایسے جھوٹے اور فراڈیے حکمرانوںکے گلے میں پٹکے ڈال کر ریگل چوک میں گھسیٹا جانا چاہیے۔سنگین مذاق کی کوئی حد ہوتی ہوگی لیکن یہ حد حکمرانوں نے توڑ دی ہے۔ ملک کے اندر پاور نہ ہونے کے سبب بے روزگاروں کی فوج ظفر موج سڑکوں پر سیلاب کی صورت میں امڈ آتی ہے۔پہیہ بند’بھٹی ٹھنڈی’چمنی سے دھویں کی بجائے کبوتر نکلتے ہیں۔لوگ کیا کریں۔ انہیں گاڑیاں نہیں جلانی چاہیں’ تھانے خاکستر نہیں کرنے چاہیں صرف حکمران طبقہ کے گھروں میں گھس جانا چاہیے۔ اپنے دکھوں کا حساب برابر کرنا چاہیے۔پنجاب حکومت بھی تماشا کررہی ہے۔میاں شہبازشریف کو بڑے میاں صاحب نے باندھ رکھا ہے۔ میاں شہبازپنجاب کی بات تو کرتے ہیں لیکن کالاباغ ڈیم کا نام لینے سے ڈرتے ہیں کیونکہ برادر کلاں نے وزیراعظم بننا ہے۔اگر میاں شہباز نے صرف پنجاب کا مقدمہ لڑنا ہوتا تو کب کا ڈیم بن چکا ہوتا اور پاکستان میں توانائی کا مسئلہ دو سو برسوں کے لئے حل ہوجاتا لیکن اب تماشا کر رہے ہیں کالا باغ ڈیم کے لئے حکومت نے بجٹ میں صرف دس لاکھ روپے مختص کئے ہیں۔دس لاکھ میں ڈیم کا بورڈ نہیں بنتا۔ صرف تماشا!صدر اور وزیراعظم یا تو بہت سادہ لوح ہیں یا انتہا کے سفاک لوگ۔ ہر تین مہینے کے بعد خبر چھپ جاتی ہے کہ وزیراعظم نے ملک میں بدترین لوڈشیڈنگ کا نوٹس لے لیا ہے۔ صدر نے حکم دیا ہے کہ ”بجلی پیدا کی جائے” عوام کی اور کس طرح توہین کی جاتی ہے۔ یہ نوٹس لینے اور بجلی پیدا کرنے کا حکم دینے سے کیا دس ہزار میگاواٹ نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی؟عوام نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ ان کی مصیبتوں پر قہقے لگانے والے حکمرانوں کا وہ خود نوٹس لیں گے او رالحمدللہ ہر روز یہ نوٹس لیا جارہا ہے۔ اب کوئی ممبر پارلیمنٹ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔یہ عوام کا نوٹس ہے۔ پاکستان کے ستائے ہوئے لوگوںنے ظالم حکمرانوں کے ظلم کا نوٹس لینے کی حقیقی راہ ڈھونڈلی!!