Jun
21
|
Click here to View Printed Statement
یوسف رضا گیلانی کو یقین تھا کہ وہ’ آرمی چیف اور چیف جسٹس 2013ء میں ایک ساتھ فارغ ہوں گے۔ اس یقین کا اظہار انہوں نے بارہا سرعام بھی کیا اور اپنے پسندیدہ بلکہ پروردہ صحافیوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں بھی کیا۔ لیکن منگل 19جون 2012ء کی سہ پہر نے ان کی وزارت عظمیٰ ان سے چھین لی۔ عدالت عظمیٰ نے بالآخر ایک خوبصورت وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ ایک ایسا شخص جن کا لباس انتہائی قیمتی تھا’جس کی اہلیہ لندن سے مہنگا ترین پرس خریدنے میں بازی لے گئی تھی۔ جس کے تین جوڑوں کی قیمت 30لاکھ روپے تھے اور جس نے غریب ترین ملک کا جمہوری وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھے بلکہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہونے کے بعد اپنے پرشکوہ رہن سہن میں اضافہ کیا۔
اس یوسف رضا گیلانی کو رسو اہو کر بغیر جھنڈے والی گاڑی میں چپکے سے وزیراعظم ہائوس سے نکلتے دیکھا گیا۔یوسف رضا چاہتے تو ایک شخص سے وفاداری نبھانے کی بجائے ریاست کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے۔ چور کو چور مان لیتے اور سوئس حکام کو خط لکھ کر انصاف کا بول بالا کرنے میں سپریم کورٹ کا ساتھ دیتے لیکن گیلانی نے زرداری سے وفا کی انتہا کردی اور ثابت کیا کہ وہ کم از کم وزارت عظمیٰ کے عہدے کے کبھی بھی اہل نہیں تھے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک شخص جس کی زندگی کا محو ر و مرکز صرف اس کی پارٹی کا سربراہ ہو وہ کس طرح اٹھارہ کروڑ لوگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سنجیدہ ہوسکتا ہے۔ اور ایسے محدود نظر اور کسی شخصیت کے غلام کو جمہوری وزیراعظم کیونکر بنایاجاسکتا ہے۔یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور اقتدار کے چار برس صرف اور صرف جناب زرداری’ان کے دوستوں اور اپنے خاندان کی خدمت کی ہے۔ ان کی پارٹی کے لوگ چیختے رہے کہ وزراء اور وزیراعظم ان کی بات تک نہیں سنتے۔محکموں کے سربراہ رپورٹیں دیتے رہے کہ جناب وزیراعظم میرٹ کا قتل عام نہ کریں ۔اداروں کو چلنے دیں۔ ہر جگہ موسیٰ گیلانی کا فون ہر ٹھیکے اور پروموشن پر صدارتی چٹ۔ اتنی کرپشن تو ابن بطوطہ نے بھی اس خطے میں نہیں دیکھی تھی جتنی ایک عام پاکستانی نے یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھگتی ہے۔ (ن) لیگ جب دوسری بار برسراقتدار آئی تو اوورسیز پاکستان کے ایک وفاقی وزیر نے میاں صاحب کی قربت کے حصول کے لئے بیان داغا تھا ”ہم میاں صاحب کے کتے ہیں”۔مرحوم نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی تھی ۔یہ لوگ جو اپنے بگ باس کے ”کتے” ہوتے ہیں یہ وفا دار بہت ہوتے ہیں لیکن مالک سے زیادہ مالک کے وفادار ہوجاتے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر’عالمی اداروں کی تمام تر وارننگز کوبھلاکر ‘انصاف کے راستے میں پہاڑ کی طرح کھڑے ہوکر جناب یوسف رضا گیلانی نے جناب زرداری کی کتاب میں اپنا نام روش حروف سے لکھوا لیا ہے لیکن آنے والے پانچ برس ان کے لئے تھانہ’جیل’ کچہری اور ہسپتال کے اردگرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ وہ ملک ریاض کی طرح کچھ اینکرز کو اپنے پے رول پر رکھ کر خود کو مظلوم اور غریبوں کا حامی ثابت کروالیںلیکن فی الحال وہ پھر چاہ یوسف میں جاگرے ہیں اور اس بار پاتال میں گرنے کا سبب برادران نہیں بلکہ ان کی منہ زور کنبہ پروری’تکبر اور ریا کاری ہے۔ وقت گزرے گا تو ان کی اخلاقی حیثیت پر بھی حرف آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر آجائیں جن میں ”عزت سادات” ہی خا ک برد ہوجائے۔انہوں نے فاروق لغاری بننا پسند نہیں کیا۔فاروق خان لغاری تو پی پی پی سے نکل کر بھی زندہ رہے اور ان کی ملت پارٹی نے بہرحال اقتدار کے ایوانوں میں خوب دستک دی’لیکن جناب گیلانی پی پی پی میں رہتے ہوئے بھی اب کبھی اقتدار کے شبستانوں کا رخ نہ کرپائیں گے۔وہ بزعم خود انتہائی پاپولر وزیراعظم تھے۔ بقول ان کے انہوں نے کارکنوں اور غریب طبقہ کے لئے مثالی اقدامات اٹھائے۔ لیکن جب 19جون کی سہ پہر سپریم کورٹ میں فیصلہ سنایا جارہا تھا تو اٹارنی جنرل اور ان کے باحوصلہ وکیل بھی فیصلہ سننے کے لئے موجود نہ تھے۔انہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کے لئے سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑا تھا ‘خیال کیا جارہا تھا کہ جنوبی پنجاب یہ فیصلہ سن کر جناب گیلانی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے گا لیکن حد تو یہ ہے کہ ملتان میں ان کے حق میں ایک جلوس بھی نہ نکل سکا۔ نہ کوئی آنکھ پرنم ہوئی نہ کسی جیالی نے ماتم کیا۔ فاعتبرویااْولی الصبار!