Dec
11
|
Click here to View Printed Statement
راتوں رات تبدیلی نہیں آسکتی۔ سالوں سال بھی تبدیلی شائد نہ آسکتی ہو، لیکن یہ تو نصف صدی پر محیط المیوں اور قومی سانحوں کا دلخراش سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ فوج اور سیاستدان۔ سیاستدان اور فوج۔ دونوںایک دوسرے کیلئے میدان سجاتے رہے ہیں’ ایک دوسرے کیلئے جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب کی بار سیاستدان خاصے ہوشیار دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب ڈاکٹر علامہّ طاہر القادری صاحب ” سیاست نہیں ریاست بچائو”کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور وہ ریاست بچانے کیلئے اُسی طاقت کو بُلا رہے ہیں
جس قوّت کو انہوں نے نوازشریف کے اقتدار کے آخری دنوں میںآواز دی تھی اور جنرل پرویز مشرف کا استقبال کیا تھا۔ جناب طاہرالقادری اب کی بار کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ اب وزیراعظم ہائوس میں انتہائی دھیمے مزاج کے جناب راجہ پرویز اشرف اور ایوانِ صدر میں پارٹی کے دُوربین صدر آصف علی زرداری ہیں اور ریاست بچانے والی قوّت کی باگ ڈور ہمارے انتہائی جمہوری مزاج رکھنے والے جنرل کیانی کے ہاتھ میں ہے’ جنہیں اشتعال دلانے کیلئے ان کے بھائی کے حوالے سے کرپشن کی کئی کہانیاں منظر عام پر لائی جا رہی ہیں۔لیکن اب نہ 1999ئ کا نوازشریف ہے اور نہ ہی ” دہلی کا بانکا” پرویز مشرف ۔(ن) لیگ اور پی پی پی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اور وہ کوئی ایسی پوزیشن اختیار نہیں کرتے جہاں ایک دوسرے کے ذاتی مفادات پر زد پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہو۔ وفاقی وزیر مذہبی امُور جناب سید خورشید شاہ نے اس صورتحال پر کمال کا تبصرہ صادر فرمایا ”میں نہیں چاہتا کہ میری داڑھی پرنوازشریف کاہاتھ ہو”اور نوازشریف کا میری داڑھی پر” مقصد یہ ہے کہ پی پی پی اور (ن) لیگ کی لڑائی ”انتخابی” ہو گی ”ذاتی ” نہیں ہو گی۔ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد روک دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسیّ کی دہائی دھرائی نہیں جائے گی۔میاں نواز شریف نے اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف کو جناب آصف علی زرداری کی شان میں ” بدتہذیبی” کرنے پر اُنہیں میٹھی سی جھاڑ بھی پلائی ہے اور اس کے نتیجہ میں میاں شہباز شریف اب جناب زرداری کو براہِ راست چور، ٹھگ، ڈاکو اور لٹیرا کہنے کے بجائے بلواسطہ طور پر غصہّ اُگلتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت اگر پانچ برس پورے کر رہی ہے تو اس کی تکمیل میں حکومت کی کارگردگی نہیں بلکہ (ن) لیگ کا صبر کارگرہے۔ میاں برادران نے خود پر فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام سہا ہے لیکن سیاسی مخاصمت کو ”ہلکی پھلکی موسیقی” تک محدود رکھا ہے۔ پی پی پی کی گورنمنٹ تمام تر نا اہلیوں کے باوجود گزشتہ پانچ برس سے عوام پر مسلّط ہے۔ جناب عمران خان جب میاں نواز شریف کو برابر کا مجرم قرار دیتے ہیں تو اسی نکتے کو بنیاد بناتے ہیں۔ ”ن لیگ نے اسمبلیوںسے استعفیٰ نہ دیکر عوام کو دھوکا دیا ہے”۔ ”نہیں جی۔ یہ دونوں چور ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف کبھی نہیں لڑیں گے” عمران خان اپنے سیاسی نظریئے اور تجزیئے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔اب کی بار تقریباََ تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے فوج کی آمد کے کِسی امکان کو خوش آمدید کہنے سے انکار کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی بھی مقرّرہ وقت پر انتخابات ہی چاہتی ہے۔ انتقالِ اقتدار میں ”ٹرپل ون” کا کوئی کردار اس جماعت کو پسند نہیں ۔ مارشل لآ کی ”بی ٹیم” کا طعنہ اب تقریباََ ختم ہو چُکا ہے۔ اے این پی کی امریکہ سے انتہائی قربتوں کے بعد اب جماعت اسلامی کے زعماء سے امریکی ایجنٹ ہونے کا لیبل بھی اُتر چُکا ہے ۔ جماعت اسلامی ‘ ملی یکجہتی کونسل اور تحریکِ دفاعِ پاکستان میں شامل تمام جماعتوں نے فوج کی باری کے بارے میں سوچنا ترک کر رکھا ہے۔ اب کہیں سے کوئی ”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے” جیسی صدا سنائی نہیں دیتی۔ فوج کے خلاف میڈیا ٹرائل اور عدالتی جارحیت اسقدر مؤثر ہے کہ جی ایچ کیو دفاعی پوزیشن میں آچکا ہے۔حالانکہ مارشل لآ کا جواز اس مُلک میں ہمیشہ سے رہتا ہے اور آج کل لوُٹ مار، مہنگائی، خانہ جنگی اور بغاوتیں اسقدر زوروں پر ہیں کہ جواز مزید جائز ہو گیا ہے۔ اگر کبھی ٹی وی سکرین پر اچانک ”عزیز ہم وطنو” کی آواز سنائی دے تو عوام اس آواز کو دِل و جان سے سُنیں گے۔ایسی کوئی آوازسنائی نہ دے اور صرف ”وزیراعظم نوازشریف” کا نعرہ لگے’ مسلم لیگ (ن) اس مقصد کیلئے جناب آصف علی زرداری کے ہر زردارانہ اقدام کو استقامت کے ساتھ برداشت کرتے جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کے شکریے جاری ہیں تاکہ کوئی شکِر اقتدار کی بُلبُل کو اُچک کر نہ لے جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میاں برادران اور جناب آصف علی زرداری اٹک قلعہ کے کسی ایک ہی سیل میں قید ہو جائیں۔