Dec
11
|
Click here to View Printed Statement
ہمارے صدر اور وزیراعظم کو خیال نہیں آیا لیکن ترک صدر عبداللہ گُل نے وضاحت کر دی کہ پاکستان کے ایک ٹی وی چینل پر دکھایا جانے والا ترک ڈرامہ ترک معاشرے کی ہر گز عکاسی نہیں کرتا ” یہ ہماری تہذیب نہیں ہے” ترک صدر نے جب اُردو ٹی وی پر چلائے جانے والے ڈرامے”عشق ممنوع” کے تھیم اور ناپاک رشتوں کی پروموشن کو دیکھا تو انہوں نے فوراً ترک ڈرامہ کمپنی کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی صادر فرما دیا۔پاکستان کے ٹی وی چینلزایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ہر وقت زنا بالجبر، ڈاکے، قتل، ملک ٹوٹ جانے کی
خبریں نشر کرتے ہیں اورانٹرٹینمنٹ کے نام پر یورپی اور بھارتی ننگے پن کو لوچ دار لہجوں میں خبر کی صورت میں بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ خبر پڑھنے والی بھی اس بے حیائی پر نادم نہیں ہوتی اور ٹی وی کے مالک کے اندر کا انسان بھی شیطانیت میں ڈوبا رہتا ہے۔ آج ہمارے بچے بچے کو بالی ووڈ کے کنجروں کے نام ازبر ہیں۔ بچیوں کے فائل کور چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کے رول ماڈل لفنگے اور لفنگیاں ہوں گے۔ کوئی سائنس دان، کوئی عبدالستار ایدھی اور کوئی محافظ وطن ہمارا رول ماڈل نہ بن سکے گا۔ لفظوں کے پہناوے نے فحاشی کی ہر صورت کو قابل قبول بنا دیا ہے۔ ہیروئن ننگی ہو کر ناچے تو اسے ”بولڈ سین” کہہ کر قابل قبول بنا دیا جاتا ہے ۔ اگر بیوی کے اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے تعلقات ہوں تو اسے” حقوق نسواں” کے لبادے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ہمیں آزاد خیالی، روشن خیالی اور جدت پرستی نے مالی خوشحالی تو نہیں دی لیکن اخلاقی گراوٹ سے ضرور دوچار کر دیا ہے’ہر سکرین پر گلیمر۔کیازندگی صرف گلیمر ہی کا نام ہے۔ آج ہمارا سنجیدہ لکھاری اس ڈرامہ کلچر میں فِٹ ہی نہیں آپارہا۔ معاف رکھیئے اگر ہمارے ایڈورٹائزر اور ٹی وی مالکان اپنے بیڈ رومز کی ویڈیو چلایا کریں تو شائد بالی وڈ سے زیادہ معاوضہ کمالیں۔ اگر فواحش اور بے حیائی ہی اچھی پراڈکٹ ہے تو پھر آبپارہ چوک میں ننگے ہو کر ٹکٹ لگا دیں۔ پیسہ تو پیشہ ور عورتوں کے ذریعہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ آپ اتنا بڑا چینل چلانے کی زحمت کیوں کر رہے ہیں۔ لبرل ازم کے نام پر اس قوم کے واحد سرمائے شرم و حیا اور پاکبازی پر جان لیوا حملے جا ری ہیں۔حکمران بھی بیٹیوں کے باپ ہیں لیکن ان حکمرانوں اور ٹی وی مالکان کو احساس تک نہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صاف ستھرے خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر کیوں تُل گئے ہیں۔ انہیں اس کارِ ابلیسی سے آخر کیا مِلے گا؟ امریکہ، بھارت اور برطانیہ کی امدادی ایجینسیاں انہیں کتنی رقم مہیا کر رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسی اخلاق باختگی ہم پر مسلط کررہے ہیں؟سپریم کورٹ، پیمرا، ٹی وی ایسوسی ایشن۔ آخر کوئی تو جواب دے کہ وہ معصوم پاکستانیوں کے دِل و دماغ میں اعلیٰ خاندانی رشتوں کی جگہ نا جائز اور بازاری تعلقات کیوں ٹھونس رہے ہیں۔ اس معاشرے پر اگرطالبان جسمانی تشدد کر رہے ہیں تو یہ ٹی وی ڈرامے انٹرٹینمنٹ کے نام پرذہنی اورروحانی تشددکر رہے ہیں۔ اس سماج کیلئے دونوں گروہ ہی دہشت گردثابت ہوئے ہیں۔ دونوں انتہا پسند ہیں اور دونوں ہی پاکستان کے دُشمن ۔گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر گھر کے افراد ٹی وی سکرین کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹی وی تفریح کا ایک سستا ذریعہ ہے۔ کچھ خبریں سُن لیں، کوئی فیملی ڈرامہ دیکھنا ہوتا ہے۔ لیکن جس چینل کی طرف جائیں وہاں یا تو پرتشدد قسم کی خبریں ہیں، چیختے چنگاڑتے اینکر پرسنز ہیں، وہاں سے بچیں تو پھر بھارت ہی بھارت ہے۔ہر طرف بھارت۔ بالی وُڈ کی فلاں اداکارہ کا وزن بڑھ گیا، فلاں اب فلاں بدکردار کیساتھ گھوم رہی ہے۔ پھر ڈرامہ۔ ڈرا ہی دیتا ہے۔ ایسے ایسے سین کہ ریموٹ کے بٹن دباتے انگلیاں تھک جائیں۔ بچ ہی نہیں پاتے” کسنگ سین” ”بولڈ سین” ناپاک تعلقات کا گلیمر ” ،۔ ” انتہا کی دولت ” ”انتہا کی شہوت” کوئی بیماری ایسی نہیں جو ان ٹی وی ڈراموں کے ذریعے اس سماج میں پھیلانے کی کوشش نہ ہو رہی ہے۔ یہ تو اس قوم کا اللہ اور رسولۖ پر یقین ایسا پختہ ہے کہ ” لبرل مافیا ” کی توقعات کے مطابق ابھی تک نتائج نہیں آ رہے اور اُمید ہے کہ جوں ہی یہ حکومت غائب ہو گی شائد کچھ اس جہالت کو بریکیں لگ جائیں اور عوام ڈرامائی عذاب سے نجات حاصل کرے۔میں قوم کی مائوں اور بیٹیوں اور بیٹوں کو اللہ کی طرف سے فواحش پھیلانے والوں کے بارے میں وعید سناتا ہوں۔ارشاد ہوتا ہے” جومسلمانوں کے گروہ میں فحاشی پھیلانے کی کوشش کرے اس کاٹھکانہ جہنم ہے”۔ جمعتہ المبارک کے ہر خطبے میں ہم سنتے ہیں”’اللہ تم کو فحاشی’منکرات اور سرکشی سے منع کرتا ہے”۔ اور پھر ارشاد ہوتا ہے”’زنا کے قریب بھی مت جائو”یعنی ایسے اشارے’ کنائے اورکہانی سے بھی بچو جس سے اس کبیرہ گناہ کا خیال بھی دل میں آئے”۔