Feb
11
|
Click here to View Printed Statement
ثقافت کی کوئی متفقہ تعریف وقت کی زیاں کاری ہے ۔ایک حقیقت متفقہ ہے کہ ثقافت عقائد سے جنم لیتی ہے۔ اس فارمولے کی مدد سے ہم یورپی’ بھارتی اور پاکستانی ثقافتون میںواضح تفریق کرسکتے ہیں۔ایک عام مسلمان پاکستانی کا عقیدہ کیا ہے۔قرآن کتاب ہدایت ہے اور سیرت رسولۖ اس ہدایت کا نمونہ ہے۔کسی گئے گزرے مسلمان سے بھی پوچھ لیں اسے ایمان کے اس درجے پر آپ ضرور پائیں گے۔پاکستان میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں اور وہ اپنی سوچوں میں اسلامی تعلیمات کو ہی اپناذریعہ ہدایت اور وجہ نجات سمجھتے ہیں ۔
ان کی سوچ میں مرد و زن کے وہی رشتے مقدس ہیں جنہیں اسوہ رسولۖ نے مقدس ٹھہرایا ہے۔ لباس’چال چلن’رہن سہن اور بول چال کے جو معیار رات قرآن نے طے کردیئے ہیں ‘ عامتہ الناس ان معیارات کو ہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی ثقافت کی کسی ایسی تشریح کو ماننے پر تیار نہیں جو قرآن وسنت کے صریحاً خلاف ہو۔عمل کی بات نہیں میں یہاں ایمان اور عقیدے کی بات کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے ٹی وی سکرینوں پر کوئی منظر’کوئی ڈائیلاگ’کوئی کہانی ‘کوئی فوٹیج ایسی دکھائی دیتی ہے جوہماری عظیم اسلامی اقدار کے خلاف ہو تو ناظرین اور سامعین کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے۔ وہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں لیکن تفریح و معلومات کا کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کے سبب دلگرفتگی کے عالم میں چپ سادھ لیتے ہیں۔
ثقافتی دہشتگردوں نے امریکی اور بھارتی لابیوں سے بھاری معاوضے وصول کرکے ہمارے چینل پر اشتہار’ پروگرام’ٹاک شو کی صورت میں ایسا بندوبست کردیا ہے کہ آپ ریموٹ کنٹرول مسلسل ہاتھ میں رکھیں تو بھی آپ ثقافتی حملے سے بچ نہیں پاتے۔ معاوضہ جوں جوں بڑھتا جارہا ہے’شیطانی ثقافت کے ڈرون حملے بھی تیز ہوتے جارہے ہیں ۔ڈالر کی کشش نے پاکستانی ذہنیت رکھنے والے بڑے بڑے دانشوروں اور اینکروں کو دبوچ لیا ہے۔ہم ان کی رہائی کے لئے دعاگو ہیں’ کہ آخر جلد یابدیر واپس آجائیں گے۔
ایک بڑے پرائیویٹ ٹی وی چینل نے جینے کا نیا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ جیو ضرور مگر اتنی بے غیرتی کی زندگی کا کیا جینا۔اتنے بڑے میزبان اور اپنا ایک دن ایک پیشہ ور عورت کے ساتھ گزارتے اور اس کے عشق میں ایسے ہلکان ہوتے کہ کبھی اسے ناچتے دکھایا جارہا ہے ‘کبھی اسے گاہکوں کے ساتھ بھائو تائو کرتے۔ پروگرام کے میزبان کے منہ سے شہوت کی رالیں ٹپکتی ہیں اور اگر شائد ناظرین کا خوف نہ ہوتا تو وہ خلوتوں میں گم ہوجاتے۔ایسے لوگوں پر ترس آتا ہے جو اپنی پرتعیش زندگی کے لئے انتہائی پسماندہ سوچ کے اسیر ہورہے ہیں۔
چمکتے ماتھے والے ایک اور دانشور جو میڈیا کے اسی گروپ کا ملازم ہے وہ بھی پاکستان کے خلاف میروں کی چاکری کرتے کرتے میر جعفر بن گیاہے۔ جو ہر کسی کو اپنے سامنے جوابدہ سمجھتا تھا آج پوری قوم اس سے جواب طلب کر رہی ہے۔آخر کیا ہوا اس کی غیرت اور غربت کو؟وہ کوئی امیر آدمی بھی نہیں پھر’وہ کسی کو آن لائن لے کر آیا اور وینا ملک کی غلاظت بھری گفتگو کو پاکستانیوں کے ذہنوں میں انڈیلتا رہا۔بدقماش عورتوں کی ”بولڈنیس” کو فروخت کرنے کا دھندا شروع کردیا۔یہ کام تو ان بازاروں میں بھی خاص قسم کے ٹپکے والے ملازم کرتے ہیں’ ہمارے لئے قابل صد افتخار کو کیا ہوگیا کہ وہ بھی شیطانی ‘سفلی اور ہیجانی مارکیٹ کا سوداگر بن گیا۔خود کو پاکستان دشمنوں کے پھیلائے ہوئے ”فتنہ” کا حصہ بنا لیا۔ایسے اینکرز کے لئے صرف ایک شعر ہی کہہ سکتا ہوں’
زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں کہ جس کے لئے
اس عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
کوئی ایک ٹی وی چینل ہو تو ناظرین جا کر اس کا گھیرائو کریں یا اسے دیکھنا بند کریں۔یہاں تو جدھر دیکھتا ہوں اُدھرتو ہے تو ہے۔پاکستانی ثقافت اسلامی تعلیمات سے جنم لیتی ہے اور اسے پروان چڑھانا ہم سب کی مذہبی ہی نہیں اپنی زندگی کی بھی ضرورت ہے۔ ہم ہر طرح کی دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں اور اس ثقافتی دہشتگردی کی بھرپور مذمت بھی۔قارئین ٹی وی اینکرز’ٹی وی مالکان اور دانشوروں کی اصلاح فکر کی دعا کیجئے!