Feb
11
|
Click here to View Printed Statement
ان لوگوں سے پیشگی معذرت جنہوں نے جمہوریت کو مذہب کا درجہ دے رکھا ہے۔مغربی جمہوریت کے شاہکار سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔یورپی ممالک میں اب شہریوں کی فلاح و بہبود کے بجائے ہم جنس پرستوں کے شیطانی حقوق ایشو بن چکے ہیں۔امریکہ کی ایک ریاست میں ”چکلے” چلانے والے ایک بدکار کو گورنر بنایا گیا ہے۔ یہی نہیں امریکی حکومت خصوصاً صدر ابامہ مجبور ہے کہ وہ طاقتور حزب اختلاف کے دبائو کے سامنے سرنڈر کرجائے اور جنگ بندی کی خواہش کو ترک کرکے نئی جنگوں کی گنجائش پیدا کرے تاکہ امریکی اسلحہ ساز اور آئل کمپنیوں کا بزنس چلتا رہے۔خود پاکستان کے اندر جمہوریت کے پردے میں جو لوٹ مار ہورہی ہے اس کے تذکروں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔’
‘ہنگ پارلیمنٹ اور کولیشن گورنمنٹ” نے اس ملک کے غریب آدمی کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خطِ غربت سے نیچے سرک جانے والوںکی تعداد لاتعداد ہوتی جارہی ہے ۔مغربی جمہوریت نے اہلیت کی بجائے اکثریت کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہیں اور اکثریت کو ورغلانے اور سدھانے کے لئے طاقتور میڈیا جیسے ہتھیار موجود ہیں۔آج کی نشست میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کچھ تذکرہ کرنا ہے۔ ہمارے اسٹیٹ ٹیلی ویژن سمیت تمام ٹی وی چینلز پر اشتہارات اور ناچ گانے کے پروگراموں میں دکھائی دینے والا وہی ملک بھارت ہے جس کے بارے میں 2006ء میں سچرکمیٹی نے رپورٹ دی کہ کس طرح مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔شاہ رخ خان نے بھارتی دہشتگردوں کی دہائی دی اور وہاں کے وزیر داخلہ نے بے جی پی کا پول کھولا۔بھارتی خواتین کی چیخ و پکار سنیں تو آج کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے۔ 2008ء میں ممبئی اور دہلی میں پرائیویٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہر تین سیکنڈ بعد ایک بچی کو قتل کردیا جاتا ہے۔قتل کا طریقہ یہ کہ ڈاکٹر بچی کی پیدائش سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں ہی اسے مار دیتے ہیں اور اگر نومولود اس دنیا میں آجائے تو بعض سفاک ڈاکٹر والدین کی رضامندی سے اس معصوم حوازادی کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیتے ہیں۔ والدین پر خوف طاری ہے کہ ان کی بچی جوان ہو کر نہ صرف ان پر معاشی بوجھ بنے گی بلکہ اس کی عزت بھی محفوظ نہیں ہوگی اور ان کے لئے زندگی بھر کا ایک روگ بن جائے گا۔ بھارتی سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر عورتوں پر آوازے کستے ہیں اور غلیظ قسم کے القابات سے نوازتے ہیں۔شاہ رخ خان نے ایک مضمون میں اپنے احساسات کیا لکھے کہ اس کے بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ اب وہ بیچارہ محض مسلمان ہونے کی بنیاد پر ”شوسینا” کے جذبہ انتقام کا نشانہ بن رہا ہے اور ان کو خوش کرنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں پیش کر رہا ہے۔پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کا کیا بگاڑا تھا۔ ان کو کھیلے بغیر واپس بھجوا دیا کہ جمہوریت کا تقاضا تھا کہ ہندودہشتگرد تنظیم خوش رہے اور تنگ نظر ہندوئوں کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔بھارتی وزیر داخلہ نے ثبوتوں کے ساتھ یہ راز فاش کیا کہ بھارت میں دہشتگردانہ کارروائیاں ہندو انتہا پسندوں کا ”اپنا کارنامہ” ہے لیکن وہ دہشتگردی کے ہر واقعہ کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے میڈیا مداری کس تواتر کے ساتھ کشمیری مجاہدین کو رگڑا دیتے ہیں ۔جہاد کشمیر کو کس قدر حقارت اور ناگواری سے بیان کرتے ہیں اور کس ڈھٹائی کے ساتھ بھارت کو مظلوم اور مظلوموں کو ظالم ثابت کرنے پر ادھارکھائے رہتے ہیں۔ لیکن نصف صدی کے سب سے بڑے سچ کو سن کر ‘پڑھ کر اور جان کر بھی بھارت کے خلاف نہ کوئی زبان کھلی نہ ہی ”میڈیا ٹرائل” ہوا۔”امن کی آشا” نے آزادی صحافت کے کان میں کیا پھونکا ؟ مجرم ذہنیت کی بھارتی جماعتوں اور گروہوں کو خود بھارتی وزیر بے نقاب کرتا ہے لیکن پاکستانی میڈیا پھر سے نقاب ڈال دیتا ہے!ہر ٹی وی سکرین پر بھارتی ڈرامے’ بھارتی ناچ’ بھارتی اشتہارات ‘جی چاہتا ہے پتھر مار کر سکرین توڑ دیں لیکن پیمرا کی غیرت جاگتی ہے نہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کو توفیق ہوتی ہے ‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو سرخی پائوڈر لگا کر ہمارے دل و دماغ میں ”رول ماڈل” کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جو ان نقالوں اور طبلچیوں کی گردنیں سچے پاکستانیوں کی گرفت میں ہوں گی۔