Mar
05
|
Click here to View Printed Statement
تینوں چیف متفقہ طور پر قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ انتخابات ہر حال میں ہو کر رہیں گے۔ چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ لوگ ایسے خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیں جن میں انتخابات کے التواء کے حوالے سے کوئی جھلک ہو۔آرمی چیف نے فوجی لب ولہجے کی قطعیت کے ساتھ ایک بار پھر واضع کردیا ہے کہ قوم جس طرح کے چاہے نمائندے منتخب کرے’فوج جمہوریت کا ساتھ دے گی۔ چیف الیکشن کمیشن کے دفتر کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں اور وہ کراچی میں غیر لسانی بنیادوں پر انتخابی حلقہ بندیوں میں پھر سے مصروف ہوگئے ہیں۔تینوں چیف کی متواتر یقین دہانیوں کے بعد محترم طاہر القادری کی طرف سے انتخاب کے انعقاد کو حقیقت کے طور پر قبول کر لیاگیا ہے
اور وہ اب اس انتخاب کو پاکستان کی بہتری کا آخری انتخاب قرار دے کر تازہ سیاسی صف بندیوں کے اشارے دے چکے اوراب میڈیکل چیک اپ کے لئے اپنے دوسرے دیس سدھارنے والے ہیں۔جناب عمران خان نے بھی انٹرپارٹی الیکشن کے مرحلے کوتیز تر کردیا ہے اور اب امیدواروں کے ناموں پر غور وخوض جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جناب عمران خان نے ایک خفیہ فہرست تیار کر رکھی ہے جسے وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے سے پہلے منظر عام پر نہیں لائیں گے مباداکہ ناانصافیوں کے خلاف انٹر اپارٹی لانگ مارچ ہی نہ شروع ہوجائیں۔پاکستان مسلم لیگ قائداعظم بھی اب یقین ہوگیا ہے کہ انتخابات ٹلتے دکھائی نہیں دیتے۔چوہدری برادران نے کسی ”مبارک سنٹر” کے فل پیج اشتہارات کی بارش کردی ہے ۔وہ ماضی کی محفلوں کو عوامی شعور میں سجا کر آئندہ کے لئے ووٹ مانگنے کا جواز تلاش کر رہے ہیں۔ان کا ووٹ بینک شائد دیوالیہ ہونے والا ہے۔ ان کے دستر خوان کے خوشہ چینوں نے دن دیہاڑے ”اڈاری”مارنی شروع کردی ہے اور اکثر ہیں کہ رائے ونڈ کی بالکونیوں میں غڑغوں غڑغوں کرتے دکھائی دیتے ہیں ‘میاں محمد نوازشریف کی نوازشات کا بند کواڑ کھلا اور کہاں کہاں سے پنکھ پکھیرو واپس میاں صاحب کے ہاتھوں پر بوسے دینے پہنچ گئے ۔تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ میاں صاحب نے آخر کیسی ”چمک” دکھائی کے کراچی سے خیبر تک بڑے بڑے سیاسی گرو”بڑا بھائی” مان کر قدموں میںآ بیٹھے ہیں۔بعض تو ایسے ہیں کہ میاں صاحب کے باقاعدہ مریدین میں شامل ہوگئے ہیں۔جناب ممتاز بھٹو جیسے قدآور سندھی وڈیرے بھی میاں صاحب کو ”قائد”مان کر اپنا سیاسی بڑھاپا پرسکون بنانا چاہتے ہیں۔جناب پیرآف پگاڑو اپنے والد مرحوم کے برعکس سنجیدہ اور متحرک’ تخت لاہور کے ایسے اسیر ہوئے کہ پورے سندھ کو اٹھا کر میاں صاحب کی جھولی میں ڈال دیا۔سندھی قوم پرست جن کی زبان پر پنجاب کے خلاف دشنام طرازیوں کے واویلے بسیرا کیا کرتے تھے آج پنجابی لیڈر کے باجماعت ہمرکاب ہوگئے۔ یہ سیاسی معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟پاکستان کی حفاظت اور فیڈریشن کی طاقت کے کیسے کیسے سامان پیدا ہوگئے۔مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی میاں صاحب کے ساتھ مل گئے۔ جماعت اسلامی کا عمران خان کے ساتھ جانا تقریباً محال ہوچکا کہ تحریک انصاف کے ترجمان ”مذہبی انتہا پسندوں” کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔انتخابی بخار چڑھنا شروع ہوگیا۔جوں ہی اسمبلیاں ٹوٹیں گی۔سیاسی وفاداریاں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی اور ٹوٹنے والے بہت سے چاند تارے بہرحال میاں صاحب کی گود میںگریں گے۔سمجھ نہیں آرہی کہ ہوا کا رخ میاں نوازشریف کی طرف کیوں پھر گیا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ تمام پارٹیاں ایک طرف ہوں گی جنہوںنے امریکی جنگ میں ڈالر وصول کئے ہیں اور وہ پارٹیاں جنہیںعمومی طور پر اینٹی امریکہ سمجھا جارہا ہے وہ دوسری جانب۔ ایسی تقسیم کی صورت میںطالبان کی ہمدردیاں کونسا رخ اختیار کریں گی۔دیکھئے پندرہ مارچ کے بعد صف بندیوں میں مزید نکھار آئے گا۔