Feb
25
|
Click here to View Printed Statement
یہ ایک انوکھی تقریب تھی۔آج پاکستان میں ہر طرف خون کی آندھیاں چل رہی ہیں اور پورا ملک قتل گاہ بن چکا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیںاورغیر مسلم سہمے ہوئے اپنی جانیں بچانے کی غرض سے ہمسایہ ممالک میں پناہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔مولوی’ مفتی’علامہ’ قاری اور قاضی اور قادری کا نام آتے ہی ایک عجیب سا خوف دامن گیر ہوجاتا ہے ‘مذہب’مدرسہ’ مسجد’جبہ و دستار اور منبرومحراب دہشت کی علامتیںبنا دی گئی ہیں۔کون’ کب’ کہاں کسی کو موت کے گھاٹ اتار دے کچھ اندازہ نہیں ہوسکتا۔شیعہ محفوظ نہ دیوبند ی پرسکون۔یہ تو مسلمانوں کے مختلف مسالک کا حال ہے’ بیچارے غیر مسلم کہاں اور ان کی صدائیں کہاں۔ ایسے خونیں حالات میں جہاں اعتماد اور اعتقاد دونوں مشکوک ہوجائیں وہاں قاضی حسین احمد مرحوم کی یاد میں تقریب گویا نفرتوں میں جلتی ملت کے لئے تھوڑی دیر سستانے اور ذہنی طور پر پاکیزگی اختیار کرنے کا ایک نادر موقعہ تصور کیا جانا چاہیے۔
”قاضی صاحب کی زندگی اور ان کی جدوجہد پر سرسری سی نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ مرحوم ان ہستیوں میں شامل تھے جو اپنے رب سے راضی اور رب ان سے راضی ہوا۔ایسے انسانوں کو قرآن”’نفس مطمئنہ”قرار دیتا ہے۔ ایسے صالح افراد رنگ’نسل’علاقے’مذہب’قومیت اور اسٹیٹس سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف انسانوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیںوقف کردیتے ہیں۔یہی وہ طرز زندگی ہے جس کو دیکھ کر’پرکھ کر مسلمان’ ہندو’مسیحی’ سکھ اور پارسی سب قوموں اور قبیلوں کے نمائندے جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سابق صدرمحترم قاضی حسین جنت نصیب کے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے اور ان کی رحلت پر صرف جماعت کے کارکن نہیں’ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور اقلیتوں کے تمام نمائندوں نے دعائے مغفرت کی اور مرحوم کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔ حاضرین’ اتحاد ملت کی پہچان قاضی حسین کے لئے آج ورلڈ مینارٹیز الائنس کے کنوینئر اور مسیحی برادری کے ساتھ ساتھ بلکہ پاکستان کے ہر مظلوم شہری کی آوازجناب جے سالک نے تعزیتی اجلاس کا انعقاد کرکے فرض ادا کیا ہے”
راقم نے پریس کلب اسلام آباد میں منعقدہ اس تقریب میں اپنی گفتگو ختم کی تو جناب جے سالک نے گرج دار اور پرجوش لہجے میں قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ بیتے دنوں کی یادیںتازہ کرتے ہوئے کہا’
”ظالمو قاضی آرہا ہے” کا نعرہ دراصل میری مسیحی برادری کا بھی نعرہ تھا۔ لفظ ”ظالمو” حکمران طبقہ کے لئے تھا۔ ایک ایسا طبقہ جس نے غریب کا لہو نچوڑا اور پاکستان کے مجبور اور مقہور لوگوں کو محرومیوں کی دلدل میں دھکا دے دیا۔ جب کبھی بھی اس طبقہ کے خلاف کوئی تحریک اٹھے گی۔قاضی کا نعرہ اور چہرہ دونوں ہمارے لئے روشنی کا سبب بنیں گے”۔
قاضی حسین احمد کے بیٹے اور لب و لہجے اورسوچ اور انداز بیان میں ہو بہو اپنے والد مرحوم کا نمونہ جناب آصف لقمان قاضی نے حاضرین کو بتایا کہ جب قاضی صاحب اپنے گھر نوشہرہ میں جایا کرتے تھے تو اقلیتی لوگ ان سے ملاقات کرنے ضرور آتے اور وہ ہمارے گھر میں مہمان کی بجائے میزبان ہوتے۔ قاضی صاحب سچے عاشق رسولۖ تھے اور وہ اکثر کہتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے رحمت الالعالمین تھے اور آپۖ کے پیروکاروں کو تمام انسانوں کی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے”۔
ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جناب ثاقب اکبر نے حاضرین کو بتایا کہ جب ملی یکجہتی کونسل کا نام رکھا جارہا تھا تو خاص طور پرلفظ ملی استعمال کیا گیا کہ ملت میں تمام پاکستانی شامل ہیں۔ قاضی صاحب نے کئی بار کہا کہ یہ کونسل یہ صرف مسلمانوں کے اندر اتحاد اور یکجہتی کے لئے نہیں بلکہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان بھی اخوت اور محبت پھیلانے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں آئے حاضرین نے اس وقت سب کو حیران کردیا جب سٹیج سے ”قاضی حسین احمد زندہ باد” کا نعرہ لگوایا گیا مسیحی اور مسلمان سب نے بیک وقت اور بلند آہنگ ہو کر قاضی زندہ باد کی آواز بلند کی ۔تقریب ختم ہونے لگی تو جے سالک پھر مائیک پر آئے اور ڈبڈباتی آنکھوں اور گلوگیر آواز کیساتھ کہا کہ قاضی حسین احمد ہمارے لئے ایک مسیحاکا درجہ رکھتے تھے’ خداوند کریم ان کے درجات بلند فرمائیں۔