Jun
05
|
Click here to View Printed Statement
نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ہر وقت ہر شخص ایک ہی موضوع پر بحث کر رہا ہے۔کرم دین سے لیکرچیف جسٹس آف پاکستان تک اور ماسی بشیراں سے لے کر میاں محمد نوازشریف تک توانائی کے اس بحران کو حل کرنے کی تجاویز’پروگرام اور منصوبے پر بحث کر رہا ہے۔”اگر میاں نوازشریف نے لوڈشیڈنگ پر قابو پالیا تو اگلے پانچ سال حکومت کرسکیں گے ورنہ مڈٹرم الیکشن ناگزیر ہوجائیں گے”۔ ہارنے والی پارٹیاں برملا کہہ رہے ہیں کہ میاں برادران بجلی کہاں سے لائیں گے۔آٹھ دس ہزار میگاواٹ کی کمی کیسے پوری کریں گے۔ لہٰذا اپوزیشن پارٹیاں خم ٹھونک کر کھڑی ہیں۔جونہی اقتدار کی منتقلی مکمل ہوگی’جلسے جلوس شروع ہوجائیں گے۔
تحریک انصاف نے تو طے کر لیا ہے کہ اس نے اپنے ووٹروں کی ”احتجاجی کیفیت” کو ٹھنڈا نہیں ہونے دینا اور مڈٹرم الیکشن کروا کے رہیں گے۔بجلی نے آنا نہیں ‘لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہونی۔ہر روز لاکھوں نئے کنکشن دیئے جارہے ہیں’آبادی بڑھتی جارہی ہے اور اگر انڈسٹری کی ڈیمانڈ پوری کی گئی تو ظاہر ہے کہ عام آدمی بجلی سے محروم ہی رہے گا ۔لہٰذا اپوزیشن کا کام بہت آسان ہے۔ابھی جون شروع ہوا ہے ۔اگست ستمبر تک گرمی زوروں پر رہے گی۔پہلے تین ماہ میں ہی (ن) لیگ کو ملک گیر احتجاج سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ملک میں تو بجلی ہے ہی نہیں۔آج اگر کالاباغ ڈیم بھی شروع ہوجائے تو تین چار سال اس کی تعمیر پر لگیں گے۔ تھرکول کا منصوبہ بھی کئی برس لے گا۔بجلی آئے تو کہاں سے آئے۔بجلی چوری’لائن لاسز’سرکولرڈیٹ’ یہ ساری لفظی کارروائیاں ہیں۔ریشمی بندوبست ہے۔لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی واردات ہے۔ہمسایہ اور دوست ممالک ہماری اس مجبوری کو بخوبی جانتے ہیں۔ایران کی طرف سے پیشکش ہے۔اکانومی واچ کے صدر کی حیثیت سے راقم نے ایک ایرانی کمپنی کے عہدیدار سے ملاقات کی جس میں ایرانی عہدیدار نے پاکستان کی بجلی کی ضرورت کو فی الفور پورا کرنے کی پیشکش کی۔ اخبارات میں اس خبر کو بڑی پذیرائی ملی۔جیسے تھلیسیمیا کے مریض کو کہیں سے خون ملنے کی امید پیدا ہو اور وہ خوش ہوجائے اسی طرح جوں ہی ہمیں کہیں سے ہلکا سا اشارہ ملتا ہے ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ شائد ہماری اقتصادی زندگی پھر سے سستی بجلی تو نہیں دیں گے اور امریکی پابندیوں کے ہوتے ہوئے نوازشریف حکومت یہ بجلی کیسے لے سکے گی۔بھارت والے واہگہ بارڈر کے ذریعے بجلی فروخت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ صرف پانچ سو میگاواٹ ہی دے سکیں گے۔چین کا معاملہ بڑا ہی مختلف ہے۔وہ بجلی کے شعبے میں شائد سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن سرمایہ کاری کے لئے کوئی منصوبہ بھی ہونا ضروری ہے۔منصوبہ تو ہے نہیں گنے کے پھوک کا منصوبہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس میں چین جیسا ملک سرمایہ لگائے گا۔میاں نوازشریف کی حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے۔لیکن اگر اعلانیہ ہی اٹھارہ گھنٹے ہے تو پھر کیا فائدہ؟بہرحال یہ خواب کہ میاں نوازشریف کے حلف اٹھاتے ہی تاروں میں برقی رو دوڑنے لگے گی ‘پورا نہیں ہوسکتا اور شائد دو برس تک صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی بھی نہ آسکے۔ اس لئے میرا ذاتی خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو صوبہ خیبرپختونخواہ میں جوناکامیاں ہونا ہیں انہیں چھپانے کے لئے پنجاب میں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے کروا کے بڑی حد تک چھپایا جائے گا۔مجھ سے جب لوگ پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اب تو میاں صاحب وزیراعظم بن گئے ہیں’ ”اب تو بجلی تو آئے گی نا”مجھے ان کی معصومیت پر ترس آتا ہے۔بجلی ہماری خواہشوں سے نہیں آئے گی یہ تو پیدا کرنی پڑتی ہے’اور اس کے پیدا کرنے کے لئے ہم نے صرف کرائے پرتھرمل پاور پلانٹس لگائے ہیں اور ان سفید ہاتھیوں کو فرنس آئل گیس کی خوراک چاہیے جسے اگر پورا کیا جائے تو باقی کاروبار حیات ٹھپ ہوجاتا ہے۔ اس لئے انیس بیس کے فرق سے بجلی کے یہی حالات دکھائی دے رہے ہیں۔