Jun
25
|
Click here to View Printed Statement
سستی روٹی کی سکیم چلانے والوں نے ایک سو اسی درجے کی ”کلٹی” ماری اور روٹی کی موجودہ قیمتوں پر بھی ایک فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر ڈالا۔یہ تو بھلا ہو آزاد عدلیہ کا کہ جناب چیف جسٹس نے عوام کے ساتھ یہ ہاتھ ہونے نہیں دیا اور یوں غریب آدمی کی دال ‘روٹی ‘ آلو پیاز’مرچ ‘برف اور باردانہ آئی ایم ایف کی دستبرد سے بچ گئے ورنہ میاں محمد نوازشریف کے قرابت دار ماہرین اقتصادیات نے تو”خونی انقلاب” کی بنیاد رکھ دی تھی۔اس میں کیا شک ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات کسی طرح کنٹرول میں نہیں آرہے۔ آئی ایم ایف کڑی شرائط کا تقاضا کرتا ہے اور عوام کے بدن سے مزید خون نچوڑنے کے مختلف طریقے آزمانے پر آمادہ کرتا ہے۔قومی خزانہ ”بڑے حاجی صاحب” اور ان کے وزراء اعظم اور نوسرباز دوست پہلے ہی خالی کرکے جاچکے ہیں۔پاور پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے لئے پانچ سو ارب روپے مانگ رہے ہیں
اور ہمارے وزیر خزانہ نے ساٹھ دنوں کے اندریہ رقم مہیا کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔یہ پانچ سو ارب روپے کہاں سے آئیںگے ۔بڑا آسان نسخہ ہے ۔پوری قوم روزانہ دو روٹیاں بھی کھائے تو ہر روز 36کروڑ روٹی پکتی ہے یا بکتی ہے۔ اس طرح اگر جی ایس ٹی کے نفاذ سے روٹی ایک روپے مہنگی کردی جائے تو حکومت کے خیال میں اسے روزانہ 36کروڑ روپے صرف روٹی کی مد میں وصول ہوسکتے ہیں۔خوردونوش کی باقی اشیاء اور ادویات پر ٹیکس لگا دیں تو بھی کروڑوں نہیں اربوں روپے روزانہ نچوڑے جاسکتے ہیں۔حکومت جب منصوبے بناتی ہے تو زمینی حقائق بھول جاتی ہے۔پہلے غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپوں کو تو کنٹرول کر لیں صرف اسی ایک عمل سے اتنے پیسے مل جائیں گے جتنے ضروریات زندگی کی عمومی اشیاء پر ٹیکس کے نفاذ سے متوقع ہوسکتے ہیں۔امیروں سے لے کر غریبوں کو دینے کے دعوے کرنے والے انقلابی اور جذباتی قائدین کو دال روٹی پر ٹیکس لگانے سے پہلے سوچ لینا چاہیے تھا کہ اس سے حاصل حصول تو کچھ نہ ہوگا۔ غریب کا لقمہ چھن جائے گا اور حکمرانوں کے نصیب میں محض بددعائیں آئیں گی۔عوام کو توقع تھی اور ہمارا اپنا بھی یہی خیال تھا کہ مسلم لی گ(ن) کی حکومت مہنگائی کے مارے عوام کو کم از کم مزید نہیں ماریں گے اور کوئی ایسی منصوبہ سازی فرمائیں گے کہ جس سے عام آدمی کے لئے کچھ آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ایک خام خیالی یہ بھی تھی کی میاں صاحب آتے ہی بیرون ملک اپنے اثاثوں کو وطن واپس لانے کا اعلان کریں گے اور قومی خزانے میں ایک معقول رقم جمع کراکے ایک نیا”ٹرینڈ” سیٹ کریں گے۔اگر نئے ٹیکس لگا کر ہی معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو اس کے لئے اقتصادی ماہرین کی کیا ضرورت ہے۔چولہا ٹیکس لگا دیں’ ہوا کھانے پر ٹیکس لگا دیں’ فٹ پاتھ پر چلنے کا ٹیکس لگا دیں’شہروں میں ٹائلٹس کو حکومتی تحویل میں لے کر ریٹس بڑھا دیںَ اگر آئی ایم ایف کے ”تیر بہدف”مشورے ہی آزمانے ہیں تو پھر ”خوددار اور خودمختار ملت” کے نعرے لگانے کا فائدہ کیا ہے۔تنقید تو ہوگی۔ جب کام ہی ایسے ہوں گے جس سے رہی سہی قوت خرید بھی دم توڑ جائے تو ظاہر یہ تعریف نہیں ہوسکتی۔آج کے کالم میں حکومت کو ایک مشورہ بھی دینا ضروری سمجھتا ہوں۔پاکستان میں بیچارے عوام اپنی معمولی آمدنیوں کا کثیر حصہ علاج معالجے پر خرچ کردیتے ہیں۔پاکستان میں ایلوپیتھی علاج نہ صرف مہنگا ہے بلکہ ایلوپیتھی ادویات کھانے سے ہزارہا۔پیچیدگیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔جرمنی کے بعد اب انڈیا اور امریکہ کے اندر متبادل ادویہ کا طریقہ علاج متعارف ہوچکا ہے اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے ۔یہ ادویات انتہائی سستی’ معیاری اور غیر مضر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طریقہ علاج کی سرپرستی کرے۔ہومیوپیتھک کالجوںکے نصاب اور انتظام کو سرکاری میڈیکل کالجوں کی طرح ”ریگولٹ” کرنے اور ہومیوپیتھک ادویات کی اندرون ملک تیاری کے راستے ہموار کرے۔عوام کے اندر بھی شعور اجاگر کرنے کے لئے اشتہارات دیئے جائیں۔اس طرح ایک کثیر زرمبادلہ بھی بچے گا’ عوام کو سستا علاج مہیا ہوگا اور ایک صحت مند پاکستان ابھرے گا۔سستی روٹی اور سستا علاج ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔