Jul
06
|
Click here to View Printed Statement
افغان آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی پاکستان پر الزام عائد کرچکے ہیں کہ افغان طالبان اسلام آباد کے کنٹرول میں ہیں۔پاکستان چاہے تو افغان جنگ کا خاتمہ چند ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔پاکستان میں ڈرون حملے یوں ہی نہیں ہوتے بلکہ پاکستان نے پاکستانی طالبان کی فہرست امریکی حکام کے حوالے کی ہے جن کو امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بناتا ہے۔جنرل کریمی کے اس بیان کو پاکستان کیخلاف ایک ہمسایہ مسلم ملک کی طرف سے ایف آئی آر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس بیان میں چھپے ہوئے زہر کے اثرات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔ اس بیان سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آرہی ہے کہ پاکستانی طالبان کی درپردہ نہیں بلکہ کھلے عام مدد افغان آرمی کی طرف سے جاری ہے۔مولوی فضل اللہ تو افغانستان کے صوبے نورستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔خودکش حملہ آور اور ان کی تربیت کے تمام سراغ بھی افغان سرزمین سے ہی جڑتے ہیں۔
جنرل کریمی نے ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستانی عمل دخل کا شوشہ چھوڑ کر دراصل پاکستانی طالبانکی نہ صرف پیٹھ ٹھونکی ہے بلکہ انہیں پرتشدد کارروائیوں کے لئے جواز بھی گڑھ کردے دیا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اکثر ڈرون حملے حقانی نیٹ ورک سے منسلک رہنمائوں پر ہوتے ہیں اور افغان صدر حامد کرزئی کے بقول یہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کے کنٹرول میں ہے ۔پھر بھی افغان حکومت تماشہ لگانے سے باز نہیں آئی۔اہل فکر و نظر بخوبی جانتے ہیں کہ افغان حکومت کے منہ میں بھارت کی زبان ہوتی ہے۔افغان نیشنل آرمی کی ”تربیت” بھارتی انسٹرکٹر کر رہے ہیں اور وہاں کی سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر پر بھارت اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے۔دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈھنڈورا امریکہ پیٹتا رہتا ہے۔امریکیوں کو اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج 2014ء تک افغان حدود سے باہر نکالنی ہے ۔کرزئی صاحب چاہتے ہیں کہ امریکی یہاں سے واپس نہ جائیں اور حامدکرزئی کی کرپٹ حکومت یوں ہی جلوہ گرہ رہے۔لیکن امریکیوں کو جناب کرزئی سے جو کام لینا تھا وہ لے چکے اب انہیں ”باعزت”واپسی چاہیے اور اس ”باعزت” واپسی کے لئے انہیں اصلی طالبان سے مذاکرات کی مجبوری ہے۔افغانستان کے چند بڑے شہر چھوڑ کر باقی ماندہ علاقے پر طالبانی پرچم لہراتے ہیں اور وہاں ملاں محمد عمر کا فرمان چلتا ہے۔امریکیوں کو علم ہے کہ جناب کرزئی کی نیشنل آرمی طالبان کے سامنے شائد چند ماہ بھی نہ نکال سکے اور یوںامریکہ پر یہ الزام آئے کہ اس نے افغانستان کو ایک بار پھر بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔طالبان کون ہیں۔اب یہ بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تقریباً تمام پختون آبادی کی طالبان کو حمایت حاصل ہے۔ جب کابل میں کابل میں پختون دشمن لابیاں حکمران ہیں تو ظاہر ہے وہاں کی اکثریت پختون قوم کرزئی کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چالیس ممالک کی افواج ملکر بھی طالبان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں اور طالبان جب چاہتے ہیں صدارتی محل پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ امریکی بیس میں گھس کر تباہی مچا دیتے ہیں۔طالبان کو کنٹرول کرنا ایک لطیفہ ہی ہوسکتا ہے ۔ وہ افغانستان کے فرزند اور آزادی کے متوالے افغان ہیں۔ اگر ان کا کنٹرول پاکستان کے ہاتھ میں ہوتا تو افغانستان پر کبھی امریکی یلغار نہ ہوتی۔طالبان حکومت کے پاس پاکستان کی آئی ایس آئی کے لوگ ہی نہیں گئے’پاکستانی علماء کے وفود بھی گئے تھے کہ جناب اسامہ کو آپ ملک بدر کردیں تاکہ جنگ کی نوبت نہ آئے’ لیکن جناب ملاں عمر کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ہم مہمان کو جانے کا نہیں کہہ سکتے ۔طالبان کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ جناب کرزئی اور امریکہ کو بالآخر انہی طالبان سے مذاکرات کرکے اقتدار ان کے حوالے کرنا پڑے گا۔یہ کام آج نہیں تو کل ضرور ہوکر رہے گا۔