Jul
09
|
Click here to View Printed Statement
ایک سال بھی مسند اقتدار پر نہ بیٹھ سکے اور فوجیوں کے نرغے میں نامعلوم مقام پر منتقل کردیئے گئے۔ تجزیہ نگار محمد مرسی کے فوج کے ہاتھوں یوں فارغ ہونے کی وجوہات تراشتے رہیںگے۔ لیکن حقیقت یہ کہ اخوان المسلمین کو برس ہا برس کی آزمائشوں کے بعد مصر کا اقتدار ملا لیکن وہ غیروں کی سازشوں سے زیادہ اپنی نااہلیوں کے سبب اسے سنبھال نہ پائے۔امت مسلمہ کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا پرابلم یہی ہے۔وہ اپنے طور پر یہ تصور کر لیتی ہیں کہ معاشرے میں نیکی اور راست روی صرف انہی سے شروع ہوتی اور ُانہی پر ختم ہوجاتی ہے۔وہ امور حکومت کو اپنے محدود نظریات کے مطابق چلانے کی دُھن میں مگن ہوتے ہیں اور عامة الناس کی خالصتاً انسانی ضرورتوں کو بھول کر رضائے الٰہی کے حصول کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں۔
وہ اکثریت کو لبرل’سیکولر اور بے دین سمجھ کر اپنے اردگرد ایک مخصوص ذہنیت کا دائرہ کھینچ لیتے ہیں اور لوگ جب اپنی ضرورتوں کو احتجاج کی شکل دیتے ہیں تو وہ احتجاج کو سازش قرار دے کر رد کردیتے ہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ مصر اور اس کی فوج اور وہاں کی عوام کسی طور پر کبھی بھی مذہبی نہیں رہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر عملاً امریکی امداد پر پلنے والا ملک بن گیا تھا۔ اور عبدالجمال ناصر جیسے طاقتور رہنمائوں نے مصریوں کے اندر بڑی حد تک نیشنلزم بھر دیا تھا۔”عرب اسپرنگ” نے جمی جمائی حکومتوں کیخلاف ایک بڑی تبدیلی کے لئے سر اٹھایا اور یوں اخوان المسلمین نے بھی اپنا راستہ بنایا لیکن اخوان نے مصر کے لبرل طبقات اور سیکولر گروہوں کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ ملایا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ انسانی بھلائی اور عوامی خوشحالی کو پہلی ترجیح قرار دیں گے۔لیکن جب اقتدار مل گیا تو محمد مُرسی نے نہ صرف اپنے مخالفین کو چن چن کر نکال باہر کیا بلکہ اپنے مخالف صحافیوں پر عجیب وغریب طرح کے الزامات لگا کر انہیں پابند سلاسل کیا اور اپنے مخالف ‘ہر آواز کو امریکی سازش قرار دیا۔جن گروہوں کی مدد سے جناب مرسی نے ووٹ لیا انہیں ہی ناراض کردیا اور عوامی فلاح کی بجائے پارٹی کی مضبوطی پر سارا زور لگا دیا۔زمینی حقائق کوئی لطیفہ نہیں ہوتے کہ انہیں مذاق میں اڑا دیا جائے۔مصر ایک کثیر الجہتی ثقافت اور مذہب کا ملک ہے۔ثقافت اور سیاحت ہی اس ملک کی معیشت کی جان ہے۔غیر ملکی سیاحوں کو ہر طرح کی خرافات کی آزادی چاہیے۔ آپ ان خرافات کو پسند کریں یا نہ کریںلیکن صدیوں سے رچے بسے تصورات کو یکبارگی ملیامیٹ نہیں کرسکتے۔ تدبیر اور تدریج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور عوام کے معاشی حالات بہتر کرکے ہی آپ پاپولر لیڈر رہ سکتے ہیں۔لوگوں کے پیٹ پر آپ لات ماریں گے تو وہ کہیں نہ کہیں تحریر چوک بنالیں گے۔ اور جب دوسرے ڈیرے ڈالنے والوں کی تعداد کروڑوں تک جاپہنچے تو پھر ملکی فوج آگے بڑھتی ہے ورنہ یو این او کی فوجیں آدھمکتی ہیں۔اسلامی ملکوں میں فوجیں شب خون مارنے میں بڑی مہارت رکھتی ہیں ۔ جس ملک میں پٹرول لینے کے لئے دو دن دن لائنوں میں کھڑا رہنا پڑے’ ٹیکس پر ٹیکس نافذ ہورہے ہوں’وہاں اخوان کی شرافت اور سادگی کو لوگ بھول جاتے ہیں اور فوج کو پکارتے ہیں۔فوج کے کئی سینئر جرنیلوں کو ہٹا کر اپنی پسند کا جنرل لگانے کا تجربہ ہمیشہ خطرناک رہا ہے۔یہ پاکستان کے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ہوں یا مصر کے جنرل عبدالفتح ہوں۔جرنیل جرنیل ہوتا ہے۔ اس کا اول و آخر مقصد فتح ہے۔دشمن فتح نہ ہوسکیں تو پھر اپنے ملک کو فتح کر لیتے ہیں۔لوگ ترکی کی مثال دیتے ہیں۔ترکی کی برسراقتدار پارٹی قطعاً اسلامی پارٹی نہیں ہے۔اسلامی سوچ رکھنے والی یہ ایک ویلفیئر پارٹی ہے۔ انہوں نے عوام کی بہتری کے لئے کام کیا ہے اور ذاتی نظریات کو بہت پیچھے رکھا ہے۔ مسلسل تین بار اقتدار حاصل کرنے کے باوجود ترکی میں شراب نوشی پر ہلکی سی پابندی کا تاثر ملا اور وہاں بھی تحریر سکوائر سج گیا۔ لوگ اپنے ذاتی معاملات میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے ہاں البتہ آپ محبت کے ساتھ تبلیغ کے ذریعے اسلام کے اعلیٰ اوصاف کی طرف لوگوں کو مائل کرسکتے ہیں۔آج بھی دنیا کا سب سے بڑا قبحہ خانہ ترکی میں واقع ہے۔ہمارے ہاں بھی نیا آرمی چیف بننے جارہا ہے۔ہم میاں محمد نوازشریف سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق کسی سینئر کو آرمی چیف بنائیں گے اپنی پسند کا ایک تجربہ سامنے ہے۔مرسی کی مثال سامنے رکھیں اورکسی جرنیل پر بھروسہ کرکے اسے آگے مت لائیں۔