Nov
06
|
Click here to View Printed Statement
مسلکی اختلافات نے نہ ختم ہونے والی باہمی جنگ و جدل کی شکل اختیار کرلی ہے اور صرف مسجدوں‘ کالونیوں اور مدرسوں کی حد تک ہی ”نوگوایریاز“ نہیں بنے زہن و قلب بھی بری طرح تقسیم ہوچکے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف زبان ہی زہر نہیں اگلتی کلاشنکوف‘ دھماکے اور خودکش حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔ پاکستان کا کونسا علاقہ‘ صوبہ اورشہر ہے جہاںفرقہ وارانہ فسادات نہیں بھڑکتے اور لاشیں نہیں گرتیں اور خون کی ندیاں نہیں بہتیں۔قیام پاکستان سے قبل ہم پڑھتے ہیں اور بزرگوں سے سنتے ہیں کہ اس برصغیر میں ہندو مسلم فسادات ہوا کرتے تھے۔پاکستان بن جانے کے بعد شیعہ سنی فسادات نے ہندو مسلم فسادات کی جگہ لے لی ہے۔یہ آگ کس نے لگائی‘ ایندھن کس نے فراہم کیا اور جلتی پر تیل کہاں سے آتا ہے۔ یہ سارے خوفناک پہلو ہیں۔ان پر لکھنے اور بات کرنے سے قلم کانپتا ہے۔لیکن وہ پاکستانی جو اس صورتحال سے پریشان رہتے ہیں وہ شیعہ سنی علمائے کرام سے توقع رکھتے ہیں
کہ دشمنیاں ختم ہوں اور پھر امت سے باہم شیروشکر ہو کر پاکستان کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ کرے۔محرم الحرام آتے ہی ایک خوف کی سی فضاءپیدا ہوجاتی ہے۔خدا جانے کیا ہوگا۔ ہر ماں کا دل دھڑکتا ہے۔کتنی جانیں ضائع ہوں گی‘ کہاںکہاں بم برسیں گے اور کون کون ٹارگٹ ہوگا۔انتظامیہ کو وارننگ دی جاتی ہیں کہ اگر جلوسوں کو روکنے کی کوشش ہوئی تو یوں کردیں گے۔ انتظامیہ کو الگ مصیبت کہ وہ اگر سیکورٹی سخت کرتے ہیں تو سڑکیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ علاقے سیل کرنے پڑتے ہیں۔ عملاً کرفیو لگانا پڑتا ہے۔ اب کی بار تو ہوائی مانیٹرنگ بھی ہوگی۔کتنی رقم صرف فضائی نگرانی پر خرچ ہوجائے گی۔”کافر کافر“ کے نعرے لگانے والے بھی تیاریوں میں ہوتے ہیں۔ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔محرم جو ہر لحاظ سے قابل احترام مہینہ ہے وہ ہمارے ہاں خوف کا مہینہ بن جاتا ہے۔ قرآن میں واضع حکم ہے کہ‘”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو“۔اتنی بڑی واضح قرآنی ہدایت کے بعد کون سی دلیل لائی جائے‘جو دلوں کو نرما دے اور ذہنوں کو تبدیل کردے۔مسلکی ہم آہنگی کے لئے ملی یکجہتی کونسل کا قیام قاضی حسین احمد(مرحوم) کا عظیم کارنامہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کونسل کی کسی نہ کسی شکل میں بحالی ہوئی ہے اور جناب لیاقت بلوچ جیسے متفقہ شخص کو اس کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا ہے۔اس کونسل کے اجلاس متواتر ہونے چاہیں اور میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اس کونسل میں شامل مختلف مسالک کے رہنماﺅں کو ذکر حسین علیہ السلام کے حوالے سے ایک مثالی نشست کا اہتمام بھی کرنا چاہیے اور اہل تشیع حضرات کو بھی ایسے تمام عناصر کا محاسبہ کرنا چاہیے جو واقعہ کربلا کے پردے میں دل دکھانے اور اشتعال پھیلانے والے جملے بولتے ہیں۔مجھے امام خمینی ؒ کا ایک جملہ بار بار یاد آتا ہے جو زبان زدعام بھی ہوا‘”جو شیعہ اور سنی میں تفرقہ ڈالتا ہے وہ شیعہ ہے نہ سنی“۔خدا جانے ہمارے شیعہ اور سنی (تمام سنی ایسے نہیں جس طرح کہ تمام شیعہ ایسے نہیں ہوسکتے) علماءمسلکی اختلاف کو دشمنی میں کیوں تبدیل کردیتے ہیں۔یہ جو لشکر بنے ہوئے ہیں اور جو سپاہ بنائی گئی ہیں ان کا مقصد کیاہے۔ یہ جان لینا چاہیے کہ اس ملک کے قیام میں کسی نہ کسی طرح ہر مسلک اور فرقے نے اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اگر دیوبند نہ ہوتا تو مسلم شناخت کو برقرار رکھنے میں بڑی مشکلات پیش آتیں۔ اگر بزرگان دین نہ ہوتے تو مسلمانوں کی اس قدر اکثریت نہ ہوتی کہ ہم یہ ملک حاصل کرسکتے اور اگر اہل تشیع نہ ہوتے تو مظلوم اور ظالم کے فرق کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آزادی کے سفر میں اہل تشیع نے کہیں زیادہ فکری غذا فراہم کی تھی۔اگر اقبالؒ نے”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“ کہا توکوئی سبب ہوگا۔کیا ہم ایک دوسرے کو مٹا سکتے ہیں؟کبھی نہیں۔پھر آپس میں مل بیٹھتے کیوں نہیں ؟قرآن نے تو کافروں کے ساتھ صلح کرنے کے لئے مشترکات پر اتفاق کی راہ دکھائی تھی‘” اے اہل کتاب‘آﺅ اس مشترکہ بات کی طرف جو تم میں اور ہم میں مشترک ہے“۔شیعہ‘ سنی ‘دیوبندی‘ اہلحدیث‘سلفی‘ جہادی‘ سب کے درمیان اللہ‘ رسول اور قرآن مشترک ہیں‘ پھر دشمنی کا جواز کیا ہے؟خدارا اس محرم الحرام کو احترام اور امن سے گزارنے کے لئے قرآن کے حکم اور اسوہ رسول کو روشنی بناﺅ!