Nov
07
|
Click here to View Printed Statement
میڈیائی فضاءمیں طالبان ‘مذاکرات‘ شہید‘نیٹو سپلائی ڈرون ‘جہاد اور امن جیسے عنوانات چھائے ہوئے ہیں۔خدا نہ کرے محرم الحرام کے ماہ میں کوئی سانحہ پیش آئے‘ اگر ایسا ہوا تو پھر لاشیں‘ خون اور آگ کے نظارے بھی ٹی وی سکرینوں پر چھا جائیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کے لئے کوئی ٹیم تشکیل پائے اور ہمارے اینکرپرسنز پورا مہینہ اسی پانی میں مدھانی ڈال کر بیٹھے رہیں۔ غرض یہ کہ ذرائع ابلاغ جنہیں عوام کا ترجمان ہونے کا دعویٰ ہے وہ چند مخصوص واقعات‘لوگوں اور گروہوں کے لئے ہی وقف رہے۔حکومت ایسے حالات میں بڑی مطمئن رہتی ہے۔اور بڑی خاموشی سے مہنگائی کے جن کے ہاتھ پاﺅں کھول دیتی ہے۔آئی۔ ایم۔ایف جیسے اداروں سے مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں اور غریب کو مارنے کے تمام تیر بہدف نسخے بھی آزما لئے جاتے ہیں
۔اللہ جانے امریکہ کو حکیم اللہ محسود سے کوئی دشمنی تھی یا پاکستان کے عوام سے۔اچھا خاصا مہنگائی کے خلاف شورشرابا شروع ہوا تھا۔تحریک انصاف نے (چاہے بلدیاتی انتخابات میں بہتر نتائج کے لئے ہی سہی ‘مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان تو کر ہی دیا تھا۔امید تھی کہ عوامی غیض وغضب کے مبینہ خوف سے شائد پٹرول اڑتالیس پیسے کی بجائے چار پانچ روپے سستا ہوجاتا لیکن امریکی ڈرون نے اس ملک کے عوام سے کونسا بدلہ لیا کہ راتوں رات فضاءہی بدل گئی۔غریب اپنی ترجمانی کے خواب ہی دیکھتے رہ گئے اور مہنگائی کی جگہ ”شہادت“ نے لے لی۔جوں ہی ذخیرہ اندوزوں اور ان کے سرپرست محکموں‘ افسروں اور باوسیلہ لوگوں نے ذرائع ابلاغ اور تحریک انصاف کو عوامی مسئلہ کی طرف سے غافل پایا‘مہنگائی کے میزائل برسانا شروع کردیئے۔پاکستان میں گراں فروشی اور عوام دشمنی کے ایسے ”ہنی مون پیریڈز“ سال میں کئی بار آتے ہیں‘بلکہ جب سے نون لیگ کی پژ مُردہ حکومت نے معاملات کو چھوا ہے‘مہنگائی ‘فحاشی کی طرح پھیلتی جارہی ہے اورفحاشی مہنگائی کی طرح اچھل کود کر رہی ہے۔خیال تھا اور میرا خیال نہیں عام آدمی کا خیال تھا کہ بے وقعت روپے کے ساتھ گوشت کا تصور ہی ختم کردینا چاہیے اور عید بقر کے علاوہ پورا سال ”ہندو“ بن جانا چاہیے۔اگر ایسا کریں گے تو چلیں دال ساگ ہی سہی‘پیٹ تو بھرتا ہی رہے گا۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دُعا کی کے مصداق یہ خواب بھی جوئے شیر لانے والا خواب ثابت ہوا۔دو تین دنوں میں مرچ‘ساگ اورپیاز ‘مرغی سے مہنگے کردیئے گئے۔روٹی نے آٹھ روپے سے چھلانگ لگائی اور دس تک جاپہنچی اور یہاں بھی رکی نہیں۔ مانسہرہ میں پندرہ روپے کی فروخت ہوئی اور روٹی کی یہ دوڑ جاری ہے۔غریب نے سوچا ہو گا کہ دو ٹماٹر لے کر چٹنی ہی بنا لیں گے لیکن ٹماٹر ایک سو ساٹھ سے لے کر دو سو روپے تک چلاگیا اور یوں چٹنی پیاز کا ”شاہانہ طرز ضیافت“ بھی صرف امراءکے لئے مختص ہوگیا۔”کیلا پچاس روپے درجن‘ ایک سوروپے کے دو درجن لے جاﺅ“ اتوار بازار میں ریڑھی بان کو یہ آواز لگاتے سن کر ہمارے ایک دوست اس کے قریب گئے اور ہاتھ باندھ کر اس سے کہا” ذرا آہستہ بولو۔ اگر حکومت کو پتہ چل گیا تو یہ بھی ہماری پہنچ سے دور چلا جائے گا“۔ بہرحال آجکل کیلا سستا ہے اور ہوسکتا ہے کہ جناب شہباز شریف لاہوریوں کو ہدایت کردیں کہ دال روٹی اور مرغ چھوڑو اور تین وقت کیلے کھایا کرو۔ آپ میاں برادران سے کچھ بھی توقع کرسکتے ہیں۔ڈرونز گرانے ہیںیا نہیں۔یہ جہادیوں اور فسادیوں کا معاملہ ہے۔امریکہ خود بھی بہت بڑا فسادی ملک ہے۔یہ اوپر والے طبقات اور تخت پاکستان پر قبضہ کے خواہش مندوں کے کھیل ہیں۔غریب آدمی کو اس جنگ سے صرف ”خوف“ ہی ملنا ہے۔ڈرون گرائیں یا نہ گرائیں‘لیکن ٹماٹر ضرور گرالیں۔