May
23
|
Click here to View Printed Statement
اچھی حکمرانی کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتاہے کہ اچھے لوگوں کو اداروں کا سربراہ مقرر کیا جائے۔موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کرپشن اور نااہلی سے پاک افراد کو مختلف قومی اداروں کی ذمہ داریاں سونپ رہی ہے تاکہ ادارے مضبوط ہوں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت کے لئے نیک نامی کا باعث بن سکیں۔ ایک سال گذر چکا ہے۔ درجن سے زائد قومی ادارے اب بھی ایسے ہیں جن کے سربراہان مقرر نہیں کئے جاسکے۔لیکن قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو میاں محمد نوازشریف نے ذمہ داریاں سونپی ہیں وہ بڑی حد تک اہل اور ایماندار ثابت ہوئے ہیں ۔میرٹ کی یہی کڑی شرائط اور حد سے بڑھی ہوئی احتیاط دامن گیر ہوگی جس کے سبب حکومت کومناسب لوگ میسر نہیں آپارہے۔
ہلال احمر اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ادارہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے حصے میں ڈاکٹر سعید الٰہی جیسی متحرک شخصیت آئی ہے۔ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف سرسری سا ہے لیکن جو کچھ اخبارات میں چھپا ہے اور ٹی وی پر دیکھا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی خدمت کے اس ادارے نے انگڑائی ضرور لی ہے۔مارچ 1948ء میں انجمن ہلال احمر پاکستان کے نام سے قائم ہونے والے اس فلاحی ادارے کے قائداعظم محمد علی جناح پہلے سربراہ تھے۔ ہمارے دوراندیش قائد نے عالمی ریڈکراس کے حصے کے طور پر ہلال احمر کی بنیاد رکھی اور اپنی افتتاحی تقریر میں ارشاد فرمایا کہ ہلال احمر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آنے والی قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کی مدد میں بھرپور حصہ لے گی۔اور پھر ایسا ہی ہوا ۔قیام پاکستان کے وقت کراچی اور لاہور میں مہاجرین کے کیمپ ہوں’ پاک بھارت جنگیں ہوں’سیلاب ہوں’ اکتوبر2005ء کا زلزلہ ہو’آواران کی بربادی ہو یا تھر کا قحط ۔ ادارے کے کارکنان اور رضاکاران سرخ جیکٹیں پہنے مصیبت زدہ پاکستانیوں کی مدد میں مصروف نظر آئے۔قرآن پاک کی آیت”’جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی” کو زندگی کا مقصد بنائے کم تر وسائل اور نامساعد حالات میں ان لوگوں نے اپنے فرض کی ادائیگی سے کوتاہی نہیں برتی۔حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں’ نظام الٹتے رہے’شخصیات آتی اور جاتی رہیں لیکن ہلال احمر یا ریڈکریسنٹ انسانی خدمت کے کاموں سے پیچھے نہیں ہٹی۔مایوسی’ خوف’حرص اور ہوس۔ کوئی منفی جذبہ بھی اس کے رضاکاروں اور خدمت گذاروں کے مشن کی راہ میں حائل نہ ہوسکا۔
ہلال احمر پاکستان کے ترجمان اور معروف کالم نگارجناب بیگ راج نے گذشتہ دنوں ایوان صدر میں ہلال احمر فری ایمبولینس سروس 1030 کے افتتاح کے موقع پر بتایا کہ ”یہ ادارہ زیادہ تر قدرتی آفات کے حوالے سے امدادی سرگرمیوں تک محدود تھا لیکن ڈاکٹر سعید الٰہی کے آنے سے اس ادارے کے دائرہ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔معمول کے حالات میں پاکستان کے اندر انسانی ہمدردی کے کاموں کو بھی پروگرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔صحت کے حوالے سے لوگوں کے اندر شعور کی بیداری’تعلیم سے محروم آبادیوں کے لئے ضروری تعلیم وتربیت’سڑک پار کرانا’ گندگی کے ڈھیر اٹھانا’مریضوں کی دیکھ بھال کرنا’کسی دھماکے’کسی دہشتگردی’کسی ہجرت اورکسی فرقت کی تکلیفوں’آزمائشوں اور مصیبتوں کو کم کرنے کے لئے ہلال احمر کے رضاکاروں کو ڈاکٹر صاحب ہر دم تیار دیکھنا چاہتے ہیں”۔ترجمان ہلال احمر کہہ رہے تھے ”ڈاکٹر سعید الٰہی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ انہیں صحت عامہ اور حفظان صحت کے حوالے سے انقلابی پروگرام بنانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وسیع تجربہ ہے ۔ انہوں نے میاں شہبازشریف جیسے برق رفتار وزیراعلیٰ کی سربراہی میں ڈینگی مہم کو کامیابی سے چلایا ہے۔ وہ چوبیس میں سے اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرنے کے عادی ہیں۔تکبر ان کو چھو کر نہیں گیا۔انکساری ‘ معاملہ فہمی اور خودداری انہیں وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے ہلال احمر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اپنے دفتر میں اپنا منشور ایک شعر کی صورت میں آویزاں کیا’
شکو ہء ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اور سچ یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کی شمع تو جلاتے ہی ہیں اپنے ساتھ چلنے والوں کی بجھی شمعیں بھی روشن کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔ان کے ہمراہ تجربہ کار اور نظم و ضبط کی پابند ٹیم ہے۔ اور ان کے سامنے خدمت انسانیت کی کٹھن منزل ہے۔”
ترجمان ہلال احمر مجھے ڈاکٹر سعید الٰہی کی شخصیت کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے اور میں ہر آنے والے مہمان کو کھلے بازوئوں کے ساتھ خوش آمدید کہنے والے جواں سال مسیحا’ ڈاکٹر سعید الٰہی کوقحط الرجال کے اس عالم میں ایک غنیمت سمجھ رہا تھا۔اقبال کے شعر نے میرے کان میں سرگوشی کی ‘
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملتّ کے مقدر کا ستارہ
مجھے یقین ہوگیا کہ کم از کم دکھی انسانوں کی خدمت کے لئے میاں محمد نواز شریف کا انتخاب قابل تحسین ہے ۔