May
23
|
Click here to View Printed Statement
جذباتی لب ولہجہ تسکین قلب کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس سے پیٹ نہیں پل سکتا۔تقسیم ہند کے وقت کشمیریوں کے پاس اختیار تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لیتے لیکن کشمیر کے لوگوں نے تمام تر اندیشوں کے باوجود فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں کشمیریوں نے ایسی جانی اور مالی قربانیاں دیں کہ تاریخ میں کسی اور قوم نے محض کسی دوسرے ملک سے الحاق کے لئے ایسا شاندار کردار شائد ہی ادا کیا ہو۔1948ء کی کشمیر کی آزادی کے لئے ہونے والی جنگ سے لے کر آج تک کونسا وہ دن ہے جب کوئی کشمیری نوجوان اس پاکستان پر قربان نہیں ہوتا’ کسی عزت مآب بی بی کی عزت تار تار نہیں ہوتی اور کسی گھر میں ہندو فوجی درندے گھس کر مال و متاع نہیں لوٹتے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اقوام عالم کے غیر متنازعہ اداروں کے ضمیر پر ہر روز کچوکے لگاتی ہے۔کشمیر کا نام آتے ہی بہتے لہو’جلتے گھروندوں اور سسکتے بچوں کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔آزادی کشمیر کا بیس کیمپ یعنی آزاد کشمیر ہر ماہ بھارتی فوج کی طرف سے داغے جانے والے گولوں سے زخمی ہوتا ہے۔ چالیس لاکھ کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ محبت کا جذبہ سرد نہیں ہوتا۔ ان کے اندر پاکستان سے بیزاری کی کوئی لہر نہیں اٹھتی۔ وہ ہر روز پاکستان سے قریب تر ہوجاتے ہیں۔آزادکشمیر کے لوگ آزاد تو ہیں لیکن اس آزادی کے وہ ثمرات انہیں نہ مل سکے جو پاکستان کے باقی صوبوں کے حصے میں آئے۔ جو پسماندگی پہلے دن تھی انیس بیس کے فرق سے وہ آج بھی موجود ہے۔ ایک ایسا آزاد حصہ جسے کوئی معقول نام نہ دیا جاسکے اسے وسائل کی تقسیم میں برابر کا حصہ دار کیوںکر تصور کیا جائے گا۔
آزادکشمیر کی پاکستان کے آئین کی رو سے کیا حیثیت ہے۔ یہ صوبہ ہے۔ریاست ہے۔یاملک ہے۔آخر کیا ہے؟۔فیڈرل بیوروکریسی اسے کبھی صوبے کا درجہ دیتی ہے ۔کبھی ریاست کی آزادانہ حیثیت دیتی ہے اور کبھی اس کا درجہ ایک تحصیل کے برابر کردیا جاتاہے۔ ہر کشمیری خصوصاً نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے میں ذہنی الجھنوں کا شکار رہتی ہے۔ کب رائے شماری ہوگی’ بھارت کے ساتھ مذاکرات اگر کامیاب ہوبھی گئے تو پھرنتیجہ کیا نکلے گا۔ اگر سری نگر دارالخلافہ ہوگا تو مظفر آباد والوں کا کیا بنے گا؟
صرف یہی نہیں اس وقت مرکز(اسلام آباد) کا آزادکشمیر کی مالی مشکلات کے حوالے سے رویہ بھی ساہوکاروں جیسا ہے۔آزادکشمیر کے وزیراعظم کو اگر پاکستان کے وزیراعظم سے ملنا ہے تو منسٹری آف کشمیر افیئرز کے ذریعے ملاقات کے لئے درخواست دینا ہوگی۔ایک فیڈرل سیکرٹری کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو دو وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہونے دے چاہے تو وزیراعظم آزادکشمیر ایڑیاں رگڑتا رہے اور بیوروکریسی برسوں ملاقات ہی نہ ہونے دے۔
”ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ بات کس سے کریں’کس کے سامنے اپنے دکھ رکھیں۔ کس کے آگے التجا کریں۔ جہاں جاتے ہیں وہاں سے جواب ملتا ہے آپ فلاں چینل سے آئیں ۔کوئی فارمل چینل بنایا ہی نہیں گیا”۔پاک کشمیر معاملات پر گہری نظر رکھنے والے دوست کشمیریوں کی بپتا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوں تو ایک کشمیر کونسل ہے۔منسٹری ہے اور صوبائی حیثیت بھی ہے۔ لیکن جب بجٹ کی باری آتی ہے تو پھر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔مرکز مہربانی کرتا ہے اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے بھیک میں دس ارب روپے عطا فرما دیتا ہے۔ترقیاتی بجٹ میں بیس ارب مل جاتا ہے۔ جب عرض کرتے ہیں کہ حضور صرف تیس ارب روپے میں کشمیر کیا کھائے گا اور کیا پیئے گا تو آگے سے جواب ہوتا ہے ”ہم نے تمہیں پالنے کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا”۔عرض کی جائے کہ جناب بلوچستان کو بھی تو آپ پالتے ہیں آخر ہم نے کونسی نافرمانی کی ہے تو جواب ملتا ہے کہ آپ پاکستان کا حصہ نہیں ہیں اور آپ کی آئینی حیثیت کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔پوچھا جائے کہ فیصلہ کب ہونا ہے تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ سارے سقراط اور بقراط منہ میں ”گھگھنیاں” ڈال کر گہری سوچوں میں گم ہوجاتے ہیں۔
راقم نے وزیراعظم آزادکشمیرچوہدری عبدالمجید کے ساتھ اڑھائی گھنٹے کی طویل ملاقات کی۔کشمیری وزراء اور دانشوروں اور مختلف اصحاب رائے سے دو دن بات جیت جاری رہی۔مختلف پہلوئوں کا احاطہ ہوا۔مختلف اوقات میں ان تمام پہلوئوں کو تحریری صورت میں پیش کروں گا۔فی الحال اتنا سمجھئے کہ کشمیری جو پاکستان کے بلامشروط خوگرہیں’ان کی زبانوں پر گلے اور شکوے آنا شروع ہوچکے ہیں۔