May
29
|
Click here to View Printed Statement
سونامی پوے ملک میں سرگرداں ہے۔فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں تعداد زیادہ نہ سہی لیکن عمران خان کی گھن گھرج جوں کی توں ہے۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ جگت بازی کے ماہر ہیں انہوں نے لطیف پیرائے میں جلسے کی کم تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ دیا” اب عمران نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے” خدا کرے کہ نوجوان نسل کو اس محاوراتی جگت کا مکمل ادراک حاصل نہ ہو ورنہ لطافت کثافت میں بدل جائے گی اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈرانا ثناء اللہ صاحب کو حسب سابق آڑے ہاتھوں لیں گے۔
عمران خان صاحب نے چاروں طرف جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔انہوں نے جیو ٹی وی نیٹ ورک اور جنگ گروپ کو (ن) لیگ کا دوسرا پی ٹی وی قرار دیا ہے۔جیو کی ٹی وی سکرین پر جناب خان صاحب کو ایسے اینکرز کے ساتھ بریکیٹ کردیا گیا ہے کہ صرف یہ تصویر بار بار چلانے پر ہی تحریک انصاف کے کارکنوں کا بلڈ پریشر بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔جیو اور جنگ نے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی سے معافی مانگ کر اپنے ”دشمنوں” کی تعداد کو کم کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ عمران خان کو تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال میں کوئی نہ کوئی ”یوٹرن”لینا ہوگا۔ ورنہ اسٹیبلشمنٹ’ جنگ گروپ اور (ن) لیگ قومی امور پر ایک ”صفحے ”پر آجائیں گے اور عمران بھائی کا سونامی پتھروں سے سر ٹکراتا رہ جائے گا۔(ق) لیگ افواج پاکستان کے احترام میں دہری ہوئی جارہی ہے ۔ لیکن وہ کبھی بھی جیو گروپ کے خلاف عمران خان کی مہم کا حصہ نہیں بنے گی۔ جیو کی معافی کا قصہ بھی عجیب ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو ہے ورنہ کہاں جیو اور کہاں معافی نامے!تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصل میں جیو کے اینکرز اور میرشکیل الرحمن کی نفسیاتی حدود میں زمین آسمان کا فرق ہے۔میر صاحب سرتاپا کاروباری شخصیت ہیں۔ انہیں کاروباری مفادات کے لئے ہزار بار معافی مانگنی پڑے مانگ لیتے ہیں۔ اینکرز کی اپنی انا ہوتی ہے۔ ان کے شائد معاشی مفادات ٹی وی چینل کی طرف سے ملنے والے وظیفوں کے علاوہ بھی کہیں سے پورے ہوتے ہیں۔ باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ میر صاحب تو 20اپریل کو ہی معافی مانگنے پر بضد تھے لیکن ”جیونیٹ نے بغاوت کی دھمکی دے دی تھی اس لئے معافی ذرا سی لیٹ ہوگئی۔ اب جب کہ ہفتہ دس دن میں معافی تلافی والا مرحلہ بھی گذر جائے گا تو پھر عمران صاحب کا کیا بنے گا؟ میں تو سوچتا ہوں تو لزر جاتا ہوں کہ سونامی نسل کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور شائد ہی کوئی ٹی وی چینل تحریک انصاف کا ساتھ دے پائے گا۔
اپنے خوف کی وجوہات میں سے کچھ وجوہات زمینی حقائق سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ جناب شیخ رشید صاحب کا خیال تھا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں میٹروبس چلنے کے بعد (ن) لیگ یہاں سے کبھی ایک سیٹ بھی نہیں لے سکے گی۔ یہ خیال لاہور میٹروبس منصوبے کے آغاز میں بھی پیش کیا گیا تھا ۔لیکن 11مئی 2013ء کو لوگوں نے اسی میٹروبس کے سبب ہی (ن) لیگ کو ووٹ ڈالے۔ ان گجروں نے بھی ووٹ ڈال دیئے جنہیں شہر میں دودھ پہنچانے کا سستا ترین ذریعہ مل گیا تھا۔میٹروبس راولپنڈی کے خلاف بھی کوئی عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔جہاں جہاں کھدائی ہورہی ہے وہاں لوگ وقتی وطر پر تنگ ہیں۔ لیکن حکومت نے انہیں ”ڈسٹ ماسک” دے دیئے ہیں کہ فی الحال وہ اڑتی دھول سے بچیں اور جب دھول بیٹھ جائے گی تو پھر جڑواں شہر کسی یورپی شہر کا نقشہ پیش کر رہے ہوں گے اور جناب شیخ رشید کسی پل پر چہل قدمی کرتے سگار پی رہے ہوں گے۔
میٹروٹرین منصوبے کے اعلان نے لاہوریوں کے اندر ایک احساس تفاخر پیدا کردیا ہے۔ ان کا لاہور’ لندن’ نیویارک’ٹوکیو جیسا ہوجائے گا۔ ان کے گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ ان کا اسٹیٹس بین الاقوامی نوعیت کا ہوجائے گا۔ جنگلہ بس کا طعنہ مارنے والے ابھی تک میٹروٹرین کے حوالے سے کوئی پھبتی مارکیٹ نہیں کرسکے۔عمران خان کا سونامی شدید غصے میں ہے ۔وہ پارلیمنٹ کے سامنے ”پھینٹی ” کھانے کے بعد پنجاب اسمبلی کے سامنے ”دادشجاعت” دینے کی تیاریاں کر رہا ہے ۔لیکن میٹروٹرین شروع ہوچکی ہے اوراس کے ساتھ ٹکرانے کے صرف دو نتیجے نکل سکتے ہیں ۔ٹرین کو پٹڑی سے اتار دیں یا ٹرین کے نیچے آکر ۔!!