Feb
18
|
Click here to View Printed Statement
بندے گننا کتنا مُشکل ہوگیا ہے۔اٹھارہ سال پہلے گنے تھے۔ تب ہم بارہ کروڑ تھے۔ اب کتنے ہیں کچھ حتمی تعداد معلوم نہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اگر فوج سیکورٹی کے لئے دستیاب ہوئی تو اپنے لوگوں کی گنتی کر لیں گے۔شائد مارچ میں حسب وعدہ یہ کارنامہ سرانجام پاجائے۔ سیکیورٹی کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ایسے پاکستانی بھی ہیں جو کسی گنتی اور شمار میں آنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ کوئی پولیو مہم تو نہیں اس شماریات کی کسی مسلک’مذہب’ علاقے یا زبان سے بھی کوئی ضد نہیں ہے۔ پھر بھی خطروں کی کئی گھنٹیاں بجتے دکھائی دے رہی ہیں۔صوبوں میں آبادی کی تعداد کا معاملہ ہوگا۔ کسی کمیونٹی کو شائد گنتی ناگوار گزرے۔ لیکن جب تک لوگ گنے نہیں جائیں گے ان کی فلاح وبہبود کے لئے منصوبہ بندی کیسے ہوسکے گی۔
ہر گھر کو علم ہے کہ گھر کے افراد کتنے ہیں۔ گھر کے سربراہ کو تعلیم ‘ صحت’ خوراک اور رہائش کے لئے کتنے افراد کا بندوبست کرنا ہے۔ اخراجات کہاں سے آئیں گے ۔ بچت کہاں سے کرنی ہے۔ ماہانہ’ سالانہ اور زندگی بھر کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ اگر ایک گھر کو اپنے افراد کا علم ہے تو پاکستان کی ریاست کو بھی اپنے عوام کی تعداد اور استعداد کا علم ہونا چاہیے۔ بغیر تعداد کے تعین کے اگر گھر کے لئے روٹیاں خریدی نہیں جاسکتیں تو ملک کیسے چلایا جاسکتا ہے۔ تُکاّ بندی پر منصوبہ بندی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ لیکن یہ دنیا کا عجیب و غریب ملک ہے جو اپنے افراد کو گننے سے ہچکچاتا رہتا ہے۔ شائد آبادی کے بم کے خوف نے انہیں اس کے قریب جانے سے روک رکھا ہے۔
ماہرین شماریات”نادرا” وغیرہ کے ڈیٹا کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ اب بھی ایسے ہیں جو شناختی کارڈ حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ شائد ان کی ضرورت نہیں ہے۔ بچے’ عورتیں اور بوڑھے بھی ہیں جن کا کسی سرکاری کھاتے میں اندراج ہی نہیں ہوا۔ اڑھائی کروڑ تو وہ بچے بھی ہیں جو کسی سکول یامدرسے میں گئے ہی نہیں۔ انہیں جنم پرچی یا نادرا کے برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئیِ۔ کراچی میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں لیکن وہ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں۔ کوئٹہ میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جنہیں افغانستان کی حکومت اپنا شہری تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور پاکستان انہیں شہریت دینا نہیں چاہتا۔ جب مردم شماری ہوگی تو غیر قانونی ”پاکستانیوں” کی تعداد بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔ صوبوں میں آبادی کا تناسب اور اضافہ بھی سامنے آئے گا۔ عورتوں کی تعداد کا پتہ چلے گا۔بوڑھوں کو بھی شمار کر لیا جائے گا۔ بچوں کی گنتی ہوگی۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ مردم شماری کرتے وقت جو فارم پر کئے جائیں گے ان میں کون کونسی معلومات پوچھی جائیں گی۔ ایسی معلومات جن سے قومی وحدت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو انہیں سامنے ہی نہیں آنا چاہیے۔ مسلکی اور لسانی حوالوں سے اعدادوشمار کی ضرورت ہی نہیں۔غریب اور امیر کی تعداد گنی جاسکتی ہے۔ ضرورت مندوں کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ برادریوں اور قبیلوں کا اندراج قطعاً بے معنی ہوگا۔
ارادے کی پختگی کی ضرورت ہے۔ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔مردم شماری پر اربوں روپے خرچ ضرور ہوں گے لیکن وسائل کی تقسیم اور وفاق کی مضبوطی کے لئے یہ کام ضروری ہوگیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس غرض کے لئے بجٹ میں جو رقم مختص کی گئی ہے وہ ناکافی ہے۔وزیراعظم پاکستان نے اپنے ابتدائی خطاب میں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت پہلے بھی بہت مشکل منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ترقیاتی منصوبے اپنی جگہ لیکن جن کے لئے آپ یہ منصوبے بناتے ہیں ان کی تعداد تو معلوم کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے سنگ وخشت کے یہ منصوبے عوام کو خوشحالی دینے کی بجائے بدحالی سے دوچار کردیں۔ عوام کی ضرورت کوئی اور ہو اور آپ کسی اور سمت میں اخراجات کر رہے ہوں۔ آبادی کو اسی وقت کنٹرول کیا جاسکتا ہے جب ان کو شمار کر لیا جائے۔ اس لئے پہلی فرصت میں مردو زن کو شمار کر لو!