Feb
11
|
Click here to View Printed Statement
یہ توفیق کی بات ہے ۔اللہ نے موجودہ حکومت کو یہ توفیق بخشی اور کابینہ کے دستخطوں سے پاکستان کی بہتری کا ایک اور بندوبست ہوگیا۔2002ء میں بحیرہ عرب میں گوادر کے مقام پر گہرے پانیوں میںخطے کی ایک بڑی بندرگاہ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ چین کے ڈپٹی پرائم منسٹر اور پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے تختی کی نقاب کشائی کی تھی۔بندرگاہ کی تعمیر کے لئے سرمایہ چین نے فراہم کیا تھا اور عمومی رائے یہی تھی کہ تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بندرگاہ کے انتظامات بھی چین سنبھالے گا۔ لیکن امریکی دبائو کے سامنے پرویز مشرف صاحب حسب روایت ڈھیر ہوگئے اور سنگاپور کی ایک کمپنی کو انتطامات سونپ دیئے گئے۔
اب جیسے بھی ہوا’ یہ انتظامات چین کی سرکاری کمپنی سنبھال رہی ہے۔ وہ تعمیر کے باقی مراحل بھی مکمل کرے گی اور یوں پاکستان کو سمندر کے راستے تجارت اور توانائی کا ایک اور بڑا ذریعہ میسر آجائے گا۔چین کو انتظامات سونپنے پر ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے بعض قریبی ہمسایہ ممالک کو دھچکا لگا ہو لیکن بظاہر کسی بھی ملک نے اس معاہدے پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ۔تشویش کا اظہار ہونا بھی نہیں چاہئے کہ کاروبار کرنا ہر ملک کا حق بھی ہے اورضرورت بھی۔ چین ایک بہت بڑا ملک ہے اور اسے تجارت اور آئل کی ترسیل کے لئے نئے روٹس درکار ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس ایسا سمندر ہے جس پر ایک دو نہیں متعدد بندرگاہیں تعمیر کی جاسکتی ہیں ۔ چین کو مشرق وسطیٰ کا تیل چاہیے اور اس کے لئے اسے بہت لمبا چکر کاٹ کر پاکستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں تیل سپلائی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اسے اپنا سستا سامان گلف’انڈیا اور یورپ تک پہنچانے کے لئے بھی بے پناہ سفری اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ کے استعمال سے چین کو اپنا مال بیچنے میں ہزارہا آسانیاں میسر آجائیں گی۔پاکستان کا اپنا فائدہ ہے۔کرائے کی صورت میں پاکستان کو اربوں ڈالرسالانہ کمانے کا موقع ملے گا۔ بلوچستان کے ہزاروں روزگار نوجوانوں کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار میسر آجائے گا۔ گوادر کے اردگرد زمینوں کی قیمت بڑھے گی اور رئیل اسٹیٹ کا بزنس ترقی پائے گا۔ ایک نیا شہر آباد ہوجائے گا اور صوبہ بلوچستان کی خستہ حالی کو خوشحالی میں تبدیل کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔چینیوں کے ساتھ کام کرنے سے پاکستانیوں کو بھی تربیت ملے گی اور یوں پاک چین دوستی کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ اہل چین کا بندرگاہیں چلانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ سری لنکا میں ایک بندرگاہ تعمیر کرچکا ہے اور بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی منصوبہ زیر تکمیل ہے۔دنیا بھر کی ترقی میں چین کا کردار کسی بھی سپرپاور سے کہیں زیادہ ہے۔بھارت کو پاک چین معاہدے پر تشویش ہے۔بھارت فکر مند ہے۔بھارت کے وزیر دفاع نے انتہائی عجلت میں اپنی پریشانی کا اظہار کردیا ہے ۔اتنا بڑا ملک اور غربت میں پھنسی کروڑوں کی آبادی ۔” تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑتو” لیکن بھارت کو کون سمجھائے۔ جہاں کہیں پاکستان کا فائدہ ہوگا’دہلی والے تڑپنا شروع کردیتے ہیں۔اگر اپنے وجود کے مطابق بڑے پن کا مظاہرہ کرتا تو کہتا”بھارت اور چین باہمی تجارت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔گوادرپورٹ کا انتظام پاکستا ن جس ملک کو چاہے دے دے۔ اس سے خطے میں تجارتی رجحانات کو فروغ ملے گا”۔ لیکن اپنے خبث باطن کو چھپا نہیں سکا اور اپنی تنگ نظری کی دھوتی کھول کر دنیا کے سامنے ننگا ہوگیا۔بھارت کی یہ سوچ کہ اس نے پاکستان اور چین دونوں کا راستہ روکنا ہے مقامی نہیں بلکہ امریکی اسپانسرڈ ہے۔ ورنہ کہاں بھارت اور کہاں یہ دو ملک۔ چین نے تو ”NO WAR” کا بورڈ لگا رکھا ہے اور وہ ہر مسئلہ کو بات چیت سے حل کر رہا ہے۔ پھر کس کے خلاف جنگ ؟ یہ بے معنی تشویش کیوں؟