Click here to View Printed Statement
اقبال نے کہا تھا، وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری میں جب پہلی بار سردار یاسر الیاس خان سے ملا تو میرے ذہن میں اقبال کے اس شعر نے سرسراہٹ کی تھی۔سردار یاسر سے تفصیلی ملاقات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ہیڈ آفس میں ہوئی۔اس خوبصورت اور خوب سیرت نوجوان نے مغل وفد کا پر تپاک استقبال کیا۔سردار صاحب کو چیمبر کا الیکشن جیتنے پر جہلم سے جناب میاں نعیم بشیر،جناب ندیم ساجد کی سربراہی میں ممتاز مغل شخصیات پر مشتمل ایک نمائندہ وفد مبارکباد دینے آیا تھا۔اسلام آباد سے جناب بیگ راج اور حسنین عرفانی مغل بھی موجود تھے۔سردار یاسر کمیٹی روم میں وفد کے ارکان سے باری باری گلے ملے،تعارف حاصل کیا اور خیریت دریافت کی۔پھر انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے دلچسپ باتیں بتائیں۔چیمبر کے الیکشن میں سردار صاحب نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
راقم نے آئی جی سندھ کے اغواء کے حوالے سے چند روز قبل “سندھ پولیس کو سیلوٹ”کے عنوان سے کالم لکھا تھا جسے آئی جی مشتاق مہر صاحب نے پڑھا اور شکریہ کا پیغام بھی بھیجا۔میرا خیال ہے کہ پولیس کلچر میں یہ ایک انوکھا واقعہ تھا کہ اپنے سربراہ کی عزت کی خاطر اور پولیس کے مورال کو بلند رکھنے کیلئے افسران نے احتجاجا رخصت پر جانے کا فیصلہ کیا۔ہمارے ہاں پولیس کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ چھوٹے افسروں اور سپاہیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے وہ اگر کوئی کارنامہ سر انجام دے بھی دیں تو مقامی ایس ایچ او کریڈٹ اپنے نام کرتا ہے۔اور انعام وغیرہ کے معاملے میں اعلی افسران ہی حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔حال ہی میں ہم ایسا منظر پنجاب میں دیکھ چکے ہیں۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@
Click here to View Printed Statement
آج انسانیت مجموعی طور پر انتشار کا شکار ہے ۔تمام تر ترقی ‘خوشحالی تعلیم اور علم کے باوجود ساڑھے چھ ارب انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کرہ ارض کو نہ ختم ہونے والے فتنوں میں مبتلا کردینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔کوئی ایسا خطہ نہیں جو جنگ و جدل سے پاک ہو۔ جہاں انسان انسان کو کاٹ نہ رہا ہو۔ جہاں آدم آدم کو لوٹ نہ رہا ہو امیر غریب کو کھائے جارہا ہے۔ باوسیلہ دنیا بے وسیلہ بستیوں کو اجاڑ رہی ہے۔تقابل کا فلسفہ اپنے تمام تر منفی معنوں کے ساتھ نسل انسانی کی تباہ کاریوں میں کارفرما ہے۔ کچھ معلوم نہیں کب زیر زمین چھپے ہوئے ایٹم بم’ سمندر میں تیرتی ہوئی نیو کلیائی آب دوزیں ‘تابکاری مواد اٹھائے فضاء میں قلانچیں بھرتے طیارے اور خلا میں ہچکولے لیتے مصنوعی سیارے اچانک کسی مہم جو ذہن کی چھوٹی سی غلطی سے اس قافلہ انسانیت کو آگ لگا دیں اور احسن تقویم کے فارمولے پر پیدا کردہ انسان اپنی ہی بدتد بیری اور بدنیتی کے سبب اپنے گھر کو جلا کر خاکستر کردے۔ انسانیت کو بچانے کی آج جس قدر ضرورت ہے۔
Continue reading »
written by DrMurtazaMughal@